شادی کے لیے مسلمانوں کو ملوانے والی برطانوی ایپلی کیشن ’مُز‘ کی جانب سے لاہور میں سنگل صارفین کی ملاقات کے لیے رواں ہفتے ایک ایونٹ رکھا گیا جس میں درجنوں کی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق لاہور میں منعقدہ مز کے ایونٹ میں سو سے زائد لوگوں نے شرکت کی۔
اس ایپ کو ماضی میں قدامت پسند اقدار والے ملک میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا تاہم ایپ کا دعویٰ ہے کہ اسلامی اقدار کا پاس رکھا جاتا ہے اور صارفین کا مسلمان ہونا بھی لازمی ہے۔
پاکستان میں ڈیٹنگ ایپس کو ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے، جہاں معاشرے میں خواتین اور مردوں کی علیحدہ جگہیں مقرر ہوتی ہیں اور زیادہ میل جول ممکن نہیں ہوتا۔
31 سالہ ایمن بھی ان صارفین میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس یونٹ میں شرکت کی، تاہم وہ اپنی مزید ذاتی معلومات دینے سے گریزاں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ ایپ امریکہ میں مقیم اپنے بھائی کے مشورے پر استعمال کرنا شروع کی۔
ایمن نے روئٹرز کو بتایا: ’میں نے ایپ دو ہفتے استعمال کی، پھر میں نے اس ایونٹ کے لیے ایک اشتہار دیکھا اور سوچا کہ کیوں نہ لوگوں سے ذاتی طور پر ملا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ ان کے ساتھ اس ایونٹ میں شرکت کرتیں مگر وہ اس وقت علیل ہیں اور اس وجہ سے شرکت نہ کرسکیں۔
مز 2015 میں برطانیہ میں شروع ہوا تھا، جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی بھی ہے، تاہم پاکستان میں اس ایپ کے 15 لاکھ سے زیادہ صارفین ہیں۔
27 سالہ معاذ ایک سال سے زائد عرصے سے مز استعمال کر رہے ہیں اور پرامید ہیں کہ انہیں اس ایپ سے ایک جیون ساتھی مل جائے گی۔
معاذ کا کہنا ہے کہ’مجھے میچز ملتے ہیں مگر ان کی مختلف ترجیحات ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ لڑکیاں خواہاں ہوتی ہیں کہ ان کے والدین کو شروع سے ہی اس بات چیت میں شامل کیا جائے۔
22 سالہ عبداللہ کے مطابق اس ایونٹ میں شرکت سے ان کو ان کی من پسند شریک حیات مل جائے گی۔
انہوں نے بتایا: ’سب سے زبردست لمحہ ایک شاندار لڑکی سے ملاقات تھی۔‘
عبداللہ نے کہا: ’ہم دونوں ہی مارول فینز ہیں! ہم ابھی سے ڈیڈپول اور ولورین ساتھ دیکھنے کا پلان بنا رہے ہیں۔‘