پشاور حملہ: پولیس اہلکار ہی خودکش حملہ آور کا سہولت کار نکلا

انسپکٹر جنرل آف پولیس اختر حیات گنڈاپور نے میڈیا کو بتایا کہ جنوری 2023 میں پشاور پولیس لائنز میں ہونے والے خود کش حملے میں ایک پولیس اہلکار نے ہی سہولت فراہم کی تھی۔

30 جنوری کو پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکار تباہ شدہ مسجد کے ملبے پر یکم فروری 2023 کو جمع ہیں اور شواہد جمع کر رہے ہیں۔ اس حملے میں اموات کی تعداد 100 تک پہنچ گئی تھی (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا میں پشاور پولیس لائنز میں جنوری 2023 کے دھماکے میں پولیس کے مطابق مرکزی سہولت کار پشاور پولیس کا اہلکار نکلا، جس نے خود کش حملے کو ممکن بنانے میں تمام تر مدد فراہم کی تھی۔

اس بات کا انکشاف خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) اختر حیات گنڈاپور نے منگل کو پولیس لائنز دھماکے کی تفتیش کی تفصیلات میڈیا کو بتاتے ہوئے کیا۔

پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی اختر حیات گنڈاپور نے بتایا کہ پولیس لائنز دھماکہ، جس میں 84 سے زیادہ پولیس اہلکار جان سے گئے تھے، کی تفتیش جاری ہے اور اس سے پہلے خود کش حملہ آور سے متعلق تفصیلات ملنے کے باوجود ایک مسنگ لنک تھا کہ سہولت کاری کس نے کی؟

اختر حیات کے مطابق جماعت الاحرار سے تعلق رکھنے والے افغان خود کش حملہ آور کے سہولت کار کی گرفتاری کے لیے کام جاری تھا تو معلوم ہوا کہ اس میں ہماری اپنی پولیس کا ایک سپاہی ملوث تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ محمد ولی عرف عمر نامی پولیس اہلکار نے 2023 میں پشاور کی پولیس لائنز میں خود کش حملہ آور کو سہولت کاری مہیا کی تھی۔ پولیس اہلکار محمد ولی کو 11 نومبر 2024 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

آئی جی پولیس خیبر پختونخوا کے مطابق: ’محمد ولی 2019 میں خیبر پختونخوا پولیس میں بھرتی ہوا تھا اور 2021 میں چھٹی لے کر براستہ چمن افغانستان گیا، جہاں اس نے جماعت الاحرار کے صوبہ کنڑ میں واقع مرکز کا دورہ کیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’کنڑ میں اس کی ملاقات جنید نامی ہینڈلر کے علاوہ افغانستان میں مارے جانے والے جماعت الاحرار کے سربراہ خالد خراسانی اور عمر مکرم خراسانی سے ہوئی۔‘

اختر حیات گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’پولیس اہلکار باقاعدہ بیعت کر کے جماعت الاحرار میں شامل ہو گیا اور بعد ازاں اسے 20 ہزار روپے دے کر واپس بھیجا گیا تھا۔‘

صوبائی پولیس سربراہ کے مطابق تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ 2023 میں جنید نامی ہینڈلر نے پولیس اہلکار کو کچھ بڑا کرنے کا بتایا اور خالد خراسانی کا بدلہ لینے کا کہا گیا۔

’افغانستان میں بیعت لینے کے بعد محمد ولی کو افغان طالبان نے گرفتار بھی کیا تھا لیکن بعد میں احرار کے ہینڈلر جنید کی درخواست پر رہا کردیا گیا۔

پولیس لائنز پر حملے کا منصوبہ

خیبر پختونخوا پولیس سربراہ کے مطابق: ’2023 میں جب پولیس اہلکار کو خالد خراسانی کا بدلہ لینے کا بتایا گیا تو اس نے پولیس لائن دھماکے سے کچھ روز قبل ہی بذریعہ ٹیلی گرام ایپ پولیس لائنز کے نقشے اور تصویریں جنید کو بھیجیں۔ 

’جنید نے محمد ولی کو ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کی ایک مسجد سے خود کش حملہ آور کو اٹھانے کا بتایا لیکن پہلی کوشش میں ممکن نہیں ہو پایا۔‘

آئی جی پولیس نے بتایا کہ ’دوسری کوشش میں محمد ولی نے خود کش حملہ آور کو پولیس وردی اور جیکٹ فراہم کر کے اسے پشاور کے پیر زکوڑی پل پر چھوڑ دیا اور اس کے بعد پولیس لائن میں دھماکہ ہوا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اختر حیات گنڈاپور نے بتایا کہ جنوری 2023 میں پولیس لائنز خود کش حملے سے کچھ عرصہ قبل محمد ولی نے اپنا تبادلہ پولیس لائنز سے پشاور بی آرٹی پولیس کرا لیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’سہولت کاری فراہم کرنے کے بدلے احرار نے محمد ولی کو دو لاکھ روپے ادا کیے اور یہ رقہم ہنڈی کے ذریعے چوک یادگار میں اسے ملی۔‘

اختر حیات گنڈاپور نے بتایا کہ محمد ولی کو احرار ماہانہ 40 سے 50 ہزار روپے ادا کرتی تھی، پولیس لائنز پشاور کے علاوہ اس نے پشاور میں ایک عیسائی پادری اور لاہور میں ایک احمدی شہری کے قتل میں بھی سہولت کاری فراہم کی تھی۔

’محمد ولی پشاور کے وارسک روڈ پر بھی آئی ای ڈی دھماکوں میں سہولت کاری کرتا رہا، جب کہ جون 2024 میں اس نے ایک خودکش بمبار کو لاہور بھیجا لیکن راستے میں سی ٹی ڈی پشاور نے حملہ آور کو گرفتار کر لیا تھا۔‘

محمد ولی کیسے گرفتار ہوا

خیبر پختونخوا پولیس کے مطابق صوبائی محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 11 نومبر کو رنگ روڈ پر واقع جمیل چوک سے پولیس کانسٹیبل محمد ولی عرف عمر کو گرفتار کیا۔

مذکورہ پولیس اہلکار نے گذشتہ سال 30 جنوری کو پشاور میں پولیس لائینز مسجد کے خودکش حملے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔

پولیس کے مطابق ملزم سے دوران گرفتاری دو عدد خودکش جیکٹ بھی برآمد ہوئیں۔

تفصیلات کے مطابق خفیہ اطلاع پر کی گئی کارروائی میں گرفتار کیا گیا محمد ولی افغانستان سے خودکش جیکٹس، خودکش حملہ آوروں، اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد رسید اور ترسیل میں براہ راست ملوث تھا۔

پولیس کے مطابق ملزم پولیس لائینز مسجد پر خودکش حملے میں حملہ آور کو ہدف کی نشاندہی، ریکی اور ٹارگٹ پر پہنچانے میں سہولت کاری فراہم کر چکا تھا۔

خیبر پختونخوا پولیس کے مطابق سی ٹی ڈی نے پولیس لائنز حملے سے متعلق ایک دوسرے سہولت کار امتیاز عرف تورہ شپہ (اندھیری رات) ولد میرزادہ ساکن مہمند (موجودہ افغانستان) کو 17 مارچ 2023 کو ضلع خیبر سے گرفتار کیا، جس نے خودکش حملے سے متعلقہ اہم انکشافات کیے۔

امتیاز نے پشاور شہر میں مذکورہ کالعدم تنظیم کے نیٹ ورک کی موجودگی اور پولیس لائینز حملے میں ملوث ہونے کا بھی ا نکشاف کیا تھا۔

خودکش حملہ آور کے ساتھ سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والے سہولت کار کو ٹریس کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے گذشتہ 22 ماہ سے مسلسل انتھک کوششوں میں مصروف تھے اور انہی کوششوں کی وجہ سے محمد ولی کی گرفتاری ممکن ہو سکی۔

محمد ولی نے ابتدائی تفتیش میں پولیس لائینز خودکش حملہ کرانے میں خودکش حملہ آور (قاری ساکن افغانستان ) کو سہولت فراہم کرنے کا اعتراف کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان