امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر اپنے تحفظات کے بارے میں واضح اور مستقل رہے ہیں، تاہم ان پابندیوں اور تحفظات کا دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے دیگر شعبوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
امریکہ نے ایک روز قبل جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے لانگ رینج بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں پروگرام کی نگرانی کرنے والی سرکاری دفاعی ایجنسی نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس اور تین تجارتی ادارے شامل ہیں۔
تاہم پاکستان نے امریکی پابندیوں پر جمعرات کو ردعمل دیتے ہوئے اس فیصلے کو ’متعصبانہ‘ اور ’بدقسمتی‘ قرار دیا تھا۔
اسی حوالے سے 19 دسمبر کو پریس بریفنگ میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ ’امریکہ دنیا میں جوہری عدم پھیلاؤ کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے اور پاکستان اس میں ایک اہم شراکت دار ہے، تاہم ہم پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں واضح اور مستقل رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کی حمایت سے انکار کرنا امریکہ کی دیرینہ پالیسی ہے۔‘
ویدانت پٹیل کا کہنا تھا کہ ’محکمہ خارجہ اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے پابندیوں اور دیگر آپشنز کا استعمال جاری رکھے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ امریکی برآمد کنندگان اور امریکی مالیاتی نظام کا غلط استعمال نہ کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم امید کرتے ہیں کہ ہم ان مسائل پر پاکستانی حکومت کے ساتھ تعمیری بات چیت جاری رکھیں گے۔‘
بریفنگ کے دوران ویدانت پٹیل سے سوال کیا گیا کہ ’آپ نے جمہوریت کو کمزور کرنے کی وجہ سے جارجیا کی پوری وزارت داخلہ پر پابندی عائد کر دی۔ پاکستان بیلسٹک میزائل پروگرام کو دفاعی ضرورت کہتا ہے مگر آپ نے اس پر پابندیاں عائد کر دیں۔ اس وقت پاکستان میں ایسے عناصر موجود ہیں جو وہاں جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں۔ وہ حملے کر رہے ہیں – مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ لہٰذا واضح طور پر آپ ایسے کام کر رہے ہیں جو پاکستان کے سٹریٹجک دفاع سے جڑے ہوئے ہیں لیکن جمہوریت کے حوالے سے آپ کے کچھ مختلف معیارات ہیں۔ تو کیا یہ دہرا معیار ہے؟‘
اس سوال کے جواب میں ویدانت کا کہنا تھا: ’نہیں، بالکل نہیں۔ میرے خیال میں ممالک میں حالات کا موازنہ کرنے کی کوشش کرنا انتہائی نامناسب ہے۔ ہر ملک مختلف ہے، ہر صورت حال مختلف ہے۔
‘یہ پابندیاں جو ہم نے پاکستان پر عائد کی ہیں، جیسا کہ میں اب تین بار کہہ چکا ہوں، ان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں ہمارے دیرینہ خدشات ہیں۔ اس کا ہمارے اور پاکستان کے درمیان تعاون کے دیگر شعبوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔’
امریکہ کی جانب سے حالیہ پابندیاں ایگزیکٹو آرڈر 13382 کے تحت لگائی گئی ہیں، جس میں ایسے افراد اور اداروں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، جو ہتھیاروں اور ان کے ترسیلی ذرائع کے پھیلاؤ میں ملوث ہوں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق پابندیوں کا شکار ہونے والے ادارے نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی)، اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ، افیلیئٹس انٹرنیشنل، اور راک سائیڈ انٹرپرائز ہیں۔
ان اداروں، جو بنیادی طور پر اسلام آباد اور کراچی میں واقع ہیں، پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام کے لیے خصوصی آلات اور مواد کی فراہمی میں کردار ادا کیا ہے۔
امریکہ اس سے قبل بھی جنوبی ایشیا میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ، خاص طور پر پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی پر مسلسل خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے، تاہم پاکستان کے کسی سرکاری ادارے پر لگائی جانے والی یہ اپنی نوعیت کی پہلی پابندی ہے۔