سال 2024 عدالت عالیہ سے عدالت عظمیٰ تک ہلچل کا سال رہا، جہاں بہت سے بڑے فیصلے ہوئے اور وہیں پہ بہت سے فیصلے معطل بھی ہوئے۔ عام سائلین کے مقدمات کم ہی سنے گئے، جب کہ سیاسی مقدمات کی بھرمار رہی۔
اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ اور نئے چیف جسٹس کی تعیناتی اور آئینی عدالت کا قیام بھی سال 2024 کی اہم عدالتی تبدیلیاں رہیں، جب کہ فوجی عدالت سے بھی اہم فیصلے سامنے آئے۔
انڈپینڈنٹ اردو اس تحریر میں سال 2024 کے اہم عدالتی معاملات، تبدیلیوں اور فیصلوں کا احاطہ کر رہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی 25 اکتوبر کو ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی 30 ویں چیف جسٹس آف پاکستان بنے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی مستعفی ہوئے، جن میں اولاذکر سینیارٹی میں دوسرے نمبر پہ تھے اور انہوں نے جسٹس عیسیٰ کی سبکدوشی کے بعد اس سال اکتوبر میں چیف جسٹس بننا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفیٰ کے بعد جسٹس منصور علی شاہ سینیئر ترین جج بن گئے۔ لیکن 26 ویں آئینی ترمیم میں چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل ہونے کے باعث وہ بھی عدالت عظمیٰ کے سربراہ نہ بن سکے اور خصوصی کمیٹی نے ان کے بجائے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کیا۔
سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کرنے کا بل منظور کیا گیا اور آئینی مقدمات کی سماعت کے لیے آئینی بینچ تشکیل دیا گیا۔ کیسز کا بوجھ کم کرنے کے لیے جسٹس طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم کو سپریم کورٹ میں ایک سال کے لیے ایڈہاک ججوں کے طور مقرر بھی کیا گیا۔
2024 کے کچھ اہم عدالتی فیصلے
1- سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر فرد جرم عائد
2024 کا سب سے اہم فیصلہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی عدالت سے سامنے آیا، جس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر سیاسی انتشار اور حلف کی خلاف ورزی کے الزامات کی بنا پر آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی، جس کے بعد اب ٹرائل کی کارروائی آگے بڑھے گی۔
2- فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق فیصلہ
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس میں فوجی عدالتوں کو سویلینز کے کیسز کا فیصلہ سنانے کی اجازت دی۔
اس سے قبل گذشتہ برس دسمبر میں سپریم کورٹ نے ٹرائل مکمل کرنے لیکن حتمی فیصلہ دینے سے روکنے کا فیصلہ دیا تھا۔
103 میں سے 20 ملزمان کو سزاؤں کی مدت پوری ہونے پر عید پر رہا کر دیا گیا تھا، جب کہ دو مزید ملزموں کی شمولیت کے بعد فوجی عدالت 85 ملزموں کا فیصلہ سنائے گی۔
3- سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی ختم
سپریم کورٹ نے رواں برس جنوری میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی ختم کی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے 6-1 سے دیے گئے فیصلے میں کہا کہ ’الیکشن ایکٹ کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال ہو گی۔‘
چیف جسٹس نے فیصلہ خود پڑھ کر سنایا جو براہ راست نشر کیا گیا۔ بینچ کے ایک رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلاف کیا۔
اس عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین آٹھ فروری کے عام انتخابات کے لیے اہل قرار پائے تھے۔
4۔ تحریکِ انصاف بلے کے انتخابی نشان سے محروم
فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل 13 جنوری 2024 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ نے 13 گھنٹے کی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان بلے سے اس بنا پر محروم کیا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا کوئی ثبوت عدالت میں جمع نہ کرا سکی۔
طویل سماعت کے دوران پی ٹی آئی کو متعدد مواقع فراہم کیے گئے کہ وہ انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے کوئی ثبوت عدالت میں جمع کروائے لیکن وہ ایسا نہ کر سکی، جس کے بعد فیصلہ سنا دیا گیا۔
5۔ مبارک ثانی کیس
احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مبارک ثانی کی ضمانت کے کیس کی سماعت فروری میں ہوئی، جس کی منظوری کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے خلاف سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔
پنجاب حکومت نے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی جو سپریم کورٹ نے علما کی تجاویز کی روشنی میں اگست 2024 میں منظور کرتے ہوئے مبارک ثانی کی ضمانت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ لیکن اس فیصلے کے متنازع پیراگرافس نمبر سات اور 42 کو حذف کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔
6۔ ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں ملا
نو جولائی 2024 کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے نو رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ریفرنس پر تفصیلی فیصلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہا کہ ’سابق وزیراعظم کے مقدمے میں آئینی و قانونی ضابطے پورے نہیں کیے گئے نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا حق دیا گیا اور مارشل لا ادوار میں عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر پاتیں۔‘
7۔ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حق دار ٹھہری
سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے 12 جولائی کو مخصوص نشستوں کے کیس میں فیصلہ دیا کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔‘
عدالت نے کہا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تحریک انصاف نے پہلے درخواست دائر کیوں نہ کی اور اس سے قبل ہی اسے ریلیف کیوں دے دیا گیا۔
مخصوص نشستوں کے لیے سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ آٹھ ججز نے پی ٹی آئی کے حق میں اکثریتی فیصلہ دیا، جو جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سمیت پانچ ججز نے اختلاف کیا۔
8۔ نیب ترامیم: عمران خان کی درخواست ناقابل سماعت
سپریم کورٹ نے ستمبر میں نیب ترامیم بحال کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی انٹراکورٹ اپیل میں کہا کہ ’عمران خان نے درخواست نیک نیتی سے دائر نہیں کی، درخواست قابل سماعت نہیں، بہت سی ترامیم کے معمار خود عمران خان تھے، وہ نیب ترامیم کو غیر آئینی ثابت نہیں کر سکے۔‘
اس کیس کی سماعت کے دوران عمران خان اڈیالہ جیل سے وڈیو لنک پر بطور پٹیشنر عدالت میں پیش ہوئے اور ایک وکیل کی جانب سے کمرہ عدالت کی سکرین سے بنائی گئی ان کی تصویر لیک ہونے پر کافی واویلا بھی مچا۔
9- آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ
تین اکتوبر کو آرٹیکل 63 اے نظرثانی درخواستوں کی چوتھی سماعت پر چیف جسٹس نے مختصر فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ’سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن و دیگر اپیلیں سماعت کے لیے منظور کی جاتی ہیں۔‘
10- پرویز مشرف کی سزائے موت برقرار رکھنے کا کیس
سپریم کورٹ نے سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کی سزائے موت برقرار رکھی جبکہ خصوصی عدالت کو غیر قانونی قرار دینے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کاالعدم کر دیا۔
عدالت نے آبزرویشن دی کہ ’مشرف کے 12 اکتوبر1999 کے اقدامات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، تحقیقات ہوتیں تو تین نومبر کا واقعہ پیش نہ آتا۔‘
11- جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کالعدم
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں الزامات ثابت کرنے کا موقع نہیں دیا۔ کونسل پر لازمی تھا کہ انکوائری کروا کے تعین کرتی کہ درخواست گزار جج یا جواب گزار جسٹس انور کاسی اور فیض حمید وغیرہ میں سے کون سچا تھا۔‘
عدالت نے لکھا ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی کو عہدے پر بحال نہیں کیا جا سکتا تاہم انہیں ریٹائرڈ جج کی تمام مراعات دی جائیں۔
12- ڈیم فنڈ کیس کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے ڈیم فنڈ میں موجود 23 ارب 67 کروڑ83 ہزار43 روپے کی رقم وفاقی حکومت کے پبلک اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کا حکم دیا اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نام پر کھولا گیا بینک اکاؤنٹ بھی بند کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
13- مونال ریسٹورنٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک میں غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے ریسٹورنٹس اور علاقہ میں کاروباری سرگرمیاں بند کرنے کا حکم دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے کہا کہ ’قانون کے مطابق نیشنل پارک میں کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں بھی مسترد کر دی گئیں، جس کے بعد مارگلہ ہلز میں قائم اسلام آباد کے مشہور مونال ریسٹورنٹ کی عمارت کو مسمار کر دیا گیا۔
14۔ ٹرائل کورٹس کے اڈیالہ جیل میں اہم فیصلے
2024 میں عمران خان بشریٰ بی بی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف فیصلے بھی ہوئے اور کچھ میں ضمانتیں بھی ملیں۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی ضمانتوں کے باوجود زیر حراست ہیں اور انڈر ٹرائل قیدی ہیں جبکہ بشری بی بی کو ضمانت مل چکی ہے۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے عام انتخابات سے قبل 31 جنوری کو توشہ خانہ نیب کیس میں عمران خان اور بشری بی بی کو 14-14سال کی قید بامشقت اور عوامی عہدے کے لیے 10 سال کے لیے نااہلی کا فیصلہ سنایا، جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپریل میں توشہ خان ون کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزائیں معطل کر کے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے 30 جنوری کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں 10-10سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔
لیکن تین جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں بری کرتے ہوئے خصوصی عدالت سے سنائی گئی سزا کا فیصلہ کاالعدم قرار دے دیا۔
دوسری جانب اسلام آباد کی سول عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو عدت میں نکاح کا مجرم قرار دیتے ہوئے سات سات سال قید کی سزا سنائی، تاہم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج افضل مجوکا نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو اس کیس میں بری کر دیا۔
توشہ خانہ کیسز میں ضمانت اور فرد جرم کے فیصلے
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نومبر میں توشہ خانہ ٹو کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ضمانتیں منظور کی، جب کہ دوسری جانب دسمبر میں ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کیے۔
190 ملین پاؤنڈ کیس میں بھی عمران خان کی ضمانت منظور ہوئی، جسے نیب نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا، جبکہ اڈیالہ جیل میں اس کیس کا ٹرائل اختتامی مراحل میں ہے۔