چیف جسٹس آف پاکستان نے بدھ کو سپریم کورٹ ڈیمز فنڈز میں موجود رقم کے پرائیوٹ بینکوں میں رکھے جانے اور مارک اپ سے متعلق اہم سوالات اٹھائے اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت اور واپڈا سے بھی معاونت طلب کر لی۔
سپریم کورٹ میں بھاشا و مہمند ڈیم کے لیے بنائے گئے اکاؤنٹ میں موجود رقم کی حوالگی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے آغاز میں ایڈیشنل آڈیٹر نے عدالت کو بتایا کہ ’سپریم کورٹ ڈیمز فنڈز کی رقم اپنے پاس نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ کے حکم نامے کے تحت وزیراعظم اور چیف جسٹس نے ڈیمز فنڈز اکاؤنٹ کھولا، رجسٹرار سپریم کورٹ اکاؤنٹ کی دیکھ بھال کرتا تھا، تحقیقات سے علم ہوا ڈیمز فنڈز اور مارک اپ میں بے قاعدگی نہیں ہوئی۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اکاؤنٹ کے نام پر اعتراض کیا کہ کیونکہ یہ ایک پرائیویٹ بینک اکاؤنٹ ہے جو وزیراعظم اور چیف جسٹس کے نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میری ہمیشہ پریکٹس رہی آئین و قانون کے بجائے عدالتی فیصلوں کو فوقیت نہیں دینی چاہیے۔ ہم نظرثانی نہیں سن رہے، صرف یہ دیکھ رہے ہیں سپریم کورٹ فنڈز رکھ سکتی ہے یا نہیں۔‘
سپریم کورٹ نے گذشتہ سماعت میں اس وقت کے دو سابق اٹارنی جنرلز کو بھی ڈیم فنڈز کی حوالگی کے معاملے پر معاونت کے لیے طلب کیا تھا۔
سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ’فنڈز کے اکاؤنٹ کا نام تبدیل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں، ڈیمز فنڈز کو حکومت کے استعمال کے بجائے ڈیمز کے لیے ہی استعمال ہونا چاہیے، جب ڈیمز فنڈز کیس چل رہا تھا اس وقت آرٹیکل 184 کی شق تین کے اختیار کا پھیلاؤ پورے ملک تک تھا۔‘
ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نے مزید بتایا کہ ’ڈیمز فنڈز پبلک اکاؤنٹ میں گئے تو مارک اپ نہیں لیا جاسکتا۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ’کیا فنڈز پبلک اکاؤنٹ سے مارک اپ کے لیے پرائیویٹ بنکس میں رکھے جاسکتے ہیں۔ ‘
ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نے جواباً کہا کہ 37’ سالہ ملازمت میں ایسا کبھی نہیں دیکھا۔‘
لیگل ایڈوائزر سٹیٹ بینک نے عدالت کو بتایا کہ ’ڈیمز فنڈ میں اس وقت ٹوٹل 23 ارب روپے سے زائد رقم موجود ہے، فنڈ میں آنے والی رقم 11 ارب جبکہ اس پر مارک اپ 12 ارب روپے سے زائد ہے۔‘
چیف جسٹس نے سٹیٹ حکام سے استفسار کیا کہ ’مارک اپ کون ادا کرتا ہے؟‘ ایڈیشنل آڈیٹر جنرل غفران میمن نے عدالت کو بتایا کہ ’مارک اپ ٹی بلز کے ذریعے حکومت ادا کرتی ہے۔ ڈیمز فنڈز کی مکمل تحقیقات کی ہیں، کوئی خردبرد نہیں ہوئی۔‘
چیف جسٹس نے نکتہ اٹھایا کہ ’حکومت اپنے آپ کو کیسے اور کیوں مارک اپ دے رہی ہے؟‘
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ ’مارک اپ اس پیسے پر دیا جاتا ہے جو حکومت استعمال کرتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت پر مارک اپ کا بوجھ ڈال کر خوش ہو رہے ہیں کہ 11 ارب روپے بڑھ کر 23 ارب ہوگئے، یہ تو آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے۔‘
وکیل واپڈا نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم نے 2018 سے لے کر اب تک 19 عمل درآمد رپورٹس جمع کرائیں۔‘
چیف جسٹس نے واپڈا کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کس دائرہ اختیار میں ڈیمز تعمیر کی پیشرفت رپورٹ مانگتی رہی؟ عمل درآمد بینچ کی تشکیل کا آئین میں کوئی ذکر ہے؟‘
وکیل واپڈا سعد رسول نے جواب دیا کہ ’عدالت کا مقصد صرف ڈیمز کی تعمیر کے حکم پر عمل درآمد یقینی بنانا تھا۔ آئین میں عمل درآمد بینچ کا ذکر نہیں لیکن کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’پاکستان میں بہت سے کام بغیر آئین اور قانون کے ہی ہو جاتے ہیں۔ میں نے حلف آئین کی بالادستی اور عمل درآمد کا اٹھایا تھا عدالتی فیصلوں کا نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ ’عمل درآمد بینچ کا تصور کراچی بدامنی کیس سے شروع ہوا تھا، سپریم کورٹ نے پیشرفت رپورٹس آئین کے آرٹیکل 184/3 کے دائرہ اختیار میں مانگی تھیں۔‘
کیا ڈیمز فنڈز کی رقم حکومت کو دی جا سکتی ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا تو سابق اٹارنی جنرل نے ڈیمز فنڈز کی رقم حکومت کو دینے کی مخالفت کی جبکہ ایڈیشنل اٹارنی نے کہا کہ ’ڈیمز فنڈ کی رقم حکومت کے پبلک اکاونٹ کے ذریعے واپڈا کو جانی چاہیے۔‘
جسٹس نعیم افغان نے اس موقعے پر ریمارکس دیے کہ ’حکومت کی مالی حالت ٹھیک نہیں، اگر اس نے رقم واپڈا کو دی ہی نہ تو کیا ہو گا؟‘
چیف جسٹس نے واپڈا کے وکیل، آڈیٹر جنرل اور اٹارنی جنرل کے نمائندگان کو ہدایت کی کہ مسئلے کا قابل عمل حل تجویز کریں، عدالت نے قابل عمل تجاویز مانگتے ہوئے سماعت جمعے، 11 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
گذشتہ ماہ وفاق کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ ڈیمز فنڈز کے پیسے وفاق اور واپڈا کو دیے جائیں، سپریم کورٹ کی نگرانی میں سٹیٹ بینک نے اکاؤنٹ کھولا تھا۔
ڈیمز فنڈز کیس کا آغاز کیسے ہوا تھا؟
سپریم کورٹ نے واپڈا کے زیر سماعت مقدمات کے دوران اس معاملے پر 2018 میں ازخود نوٹس لیا تھا۔
اس وقت جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس آف پاکستان تھے۔
جولائی 2018 میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیتے ہوئے چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی تھی۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اندرون و بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ڈیمز کی تعمیر کے لیے عطیات دینے کی اپیل کی تھی اور اپنی جانب سے 10 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے رجسٹرار سپریم کورٹ کی نگرانی میں عطیات کا خصوصی اکاؤنٹ بنانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
افواج پاکستان سمیت تمام اداروں نے اپنی تنخواہوں سے ڈیم فنڈ کے لیے رقم وقف کی تھی جبکہ بیرون ملک میں مقیم پاکستانیوں نے بھی خطیر رقم ڈیم فنڈ کے لیے بھیجی تھی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے ڈیمز فنڈز کے عمل درآمد پانچ رکنی بینچ نے 17 سماعتیں بھی کیں۔