جاپان کی ممتاز کاروباری شخصیت اوسامو سوزوکی، جنہوں نے سوزوکی موٹر کارپوریشن کو عالمی طاقت میں تبدیل کر دیا، 94 سال کی عمر میں چل بسے۔
سوزوکی کمپنی نے کرسمس کے دن ان کی وفات کا اعلان کیا اور اس کی وجہ سرطان کے مرض کو قرار دیا۔
سوزوکی، جنہوں نے چار دہائیوں سے زیادہ عرصے تک کمپنی کی قیادت کی، اپنی کفایت شعاری اور بلند حوصلے کی بدولت مشہور تھے۔
انہوں نے کمپنی کو اس کی ابتدائی سستی 660 سی سی کی چھوٹی گاڑیوں کے دائرے سے آگے بڑھایا، جو ابتدا میں جاپانی مارکیٹ کے لیے بنائی گئیں۔ ان گاڑیوں کی تیاری میں ٹیکس میں فیاضانہ رعایت سے فائدہ اٹھایا گیا۔
سوزوکی، کی قیادت کا فلسفہ ممکنہ حد تک اخراجات کو کم کرنے پر مبنی تھا۔ مثال کے طور پر کارخانے کی چھتوں کو نیچے کرنے کا حکم دینا تاکہ ایئر کنڈیشننگ کے اخراجات کم ہوں اور اپنی بعد کی زندگی میں بھی اکانومی کلاس میں سفر کرنا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ان سے سوزوکی میں ان کے عہدے کے بارے میں سوال کیا جاتا تو ان کا مزاحیہ جواب ہمیشہ ’ہمیشہ کے لیے‘ یا ’جب تک میں مر نہ جاؤں‘ ہوتا۔
70 اور 80 سال کے بعد کی عمر میں بھی کمپنی پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔
اوسامو ماتسودا کے نام سے پیدا ہونے والے سوزوکی نے اپنی بیوی کے خاندان کا نام اختیار کیا، جو جاپان میں ایک عام روایت ہے جب خاندان میں مرد وارث موجود نہ ہو۔
1958 میں سوزوکی موٹر کارپوریشن کا حصہ بننے کے بعد انہوں نے ترقی کی منازل طے کیں اور دو دہائیوں بعد کمپنی کے سربراہ بن گئے۔
ان کی ابتدائی سب سے اہم کامیابی 1970 کی دہائی میں سوزوکی موٹرز کو بچانا تھا، جب انہوں نے کارساز کمپنی ٹویوٹا کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت ایسے انجن فراہم کیے گئے جو کاربن کے اخراج کے نئے معیارات پر پورا اترتے تھے۔
سوزوکی کی جرات مندانہ قیادت نے مزید کامیابیاں دلائیں۔ مثلاً 1979 میں آلٹو منی وہیکل متعارف کرانا جس کی کامیابی نے 1981 میں جنرل موٹرز کے ساتھ سوزوکی کی شراکت داری کی بنیاد رکھی۔
1980 کی دہائی میں سوزوکی نے بڑا خطرہ مول لیا اور ایک سال کی آمدنی کو انڈیا میں قدم جمانے میں لگا دیا جو اس وقت نہایت چھوٹی آٹوموبیل مارکیٹ تھی۔
سوزوکی کا مقصد کاریں تیار کرنے والی قومی کمپنی قائم کرنا تھا اور جیسا کہ انہوں نے بعد میں وضاحت کی ’دنیا میں کسی جگہ نمبر ایک بننا‘ تھا۔ اس وقت انڈیا کی کار مارکیٹ نہایت محدود تھی، جہاں سالانہ 40 ہزار سے کم گاڑیاں فروخت ہوتی تھیں اور زیادہ تر مارکیٹ پر برطانوی گاڑیوں کا غلبہ تھا۔
1970 کی دہائی میں انڈین حکومت کی جانب سے کارساز کمپنی ماروتی کو قومیانے کے بعد، کمپنی کو غیر ملکی شراکت دار تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ فرانسیسی کار ساز کمپنی رینالٹ کے ساتھ مذاکرات ناکام ہو گئے، اور فیاٹ اور سبارو جیسے برانڈز نے ماروتی کی پیشکش کو مسترد کر دیا۔
ایک اخباری مضمون، جو ماروتی کے جاپانی حریف ڈائی ہاتسو کے ساتھ معاہدے کے بارے میں تھا، اتفاقاً سوزوکی موٹر کے ساتھ ملاقات کا سبب بنا، اور اس کے نتیجے میں ایک شراکت داری قائم ہوئی۔ 1983 میں پہلی گاڑی، ماروتی 800، مارکیٹ میں آئی جو فوراً مقبول ہو گئی اور آج ماروتی سوزوکی انڈیا کی کار مارکیٹ کے تقریباً 40 فیصد حصے پر قابض ہے۔
سوزوکی کا اثر انڈیا میں کارپوریٹ کلچر تک بھی پھیلا، جہاں انہوں نے برابری کو فروغ دیا۔ انہوں نے کشادہ دفاتر، مشترکہ کینٹینز اور افسروں اور فیکٹری کارکنوں کے لیے یونیفارم متعارف کرایا۔
تاہم سوزوکی کے تمام منصوبے مشکلات سے خالی نہیں رہے۔ 2009 میں انہوں نے ووکس ویگن کے ساتھ معاہدہ کیا، لیکن یہ شراکت داری کنٹرول اور خریداریوں پر اختلافات کی وجہ سے خراب ہو گئی۔
یہ تنازع بین الاقوامی ثالثی کیس بن گیا اور بالآخر سوزوکی نے ووکس ویگن کے 19.9 فیصد حصص دوبارہ خرید لیے۔
2016 میں سوزوکی نے چیف ایگزیکٹیو افسر کا عہدہ اپنے بیٹے توشی ہیرو سوزوکی کے سپرد کر دیا، لیکن 2021 تک چیئرمین کے طور پر کمپنی کو مشورے دیتے رہے۔
اس رپورٹ کی تیاری میں خبر رساں اداروں سے اضافی مدد لی گئی۔
© The Independent