وہ وقت پھر آ گیا ہے، آپ جانتے ہیں کہ وہ وقت جب آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کون سا دن ہے، یا یہ کہ جب آپ نے آخری بار کچھ کھایا تو وہ بھرپور مصالحے سے تر نہیں تھا۔
آپ یہ بھی یاد نہیں کر سکتے کہ آپ نے آخری بار تازہ دم محسوس کرتے ہوئے کب آنکھ کھولی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کافی عرصے سے تھکن محسوس کر رہے ہیں۔ کیا آپ کی نیند خراب ہو رہی ہے؟ آپ زیادہ پی رہے ہیں؟ یا آپ آہستہ آہستہ ایسی زندگی کے عادی ہو رہے ہیں جس میں آپ ہمیشہ سست اور غنودگی کا شکار رہتے ہیں؟
تھکن جیسی مایوس کن اور ناکارہ کر دینے والی کیفیت شاید ہی کوئی اور ہو۔ آپ کام، کھیل، یا آرام بھی اپنی مرضی سے نہیں کر پاتے کیوں کہ آپ تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔ اور پھر بھی یہ کچھ ایسا ہے جس کا سامنا ہم سب کو کسی نہ کسی وقت کرنا پڑتا ہے، حالاں کہ یہ تقریباً ہمیشہ کرسمس کے بعد زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا الزام بے فکری میں گزرے وقت کو دے دیں۔
تھکن کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں جو واضح عوامل جیسے بیماری، ذہنی دباؤ، اور نیند کے خلل سے آگے جا سکتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمیشہ خود کو اس کیفیت میں کیوں پاتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی صحت مند کیوں نہ ہوں؟ اور ہم اس کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں بغیر ان قیمتی سپلیمنٹس اور سپر فوڈز پر خرچ کیے، جو شاید مارکیٹنگ کے حربے سے زیادہ کچھ نہ ہوں؟
ڈاکٹر انجیلا رائے، ہارلے اسٹریٹ جی پی کلینک، لندن جنرل پریکٹس کی ماہر ڈاکٹر کہتی ہیں کہ ’تھکن صحت کے عمومی مسائل کی بہت عام علامت ہے۔ تھکن کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں ناقص نیند، پانی کی کمی، اور ذہنی دباؤ شامل ہیں، خاص طور پر کرسمس کے قریب، اور اس کے علاوہ طبی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔‘
ہمیشہ تھکن محسوس کرنے کی کیفیت کو طبی ماہرین’ ہمیشہ تھکا ہوا‘ کہتے ہیں۔ ڈاکٹر رائے کے مطابق دائمی تھکن کی کئی وجوہات میں سے ایک عام وجہ خون کی کمی ہے جو جسم میں پائے جانے والے فولاد کی کمی سے ہوتی ہے۔ اسے خون کے ٹیسٹ سے معلوم کیا جا سکتا ہے اور آئرن کی گولیاں کھا کر علاج کیا جا سکتا ہے۔
دیگر عام وجوہات میں ذیابیطس، گلینڈولر فیور، وٹامن بی 12 اور فولیٹ کی کمی، اور ہائپوتھائرائیڈزم شامل ہیں، جو اس وقت ہوتا ہے جب تھائرائیڈ گلینڈ کافی مقدار میں تھائرائیڈ ہارمون پیدا نہیں کرتا جس کی وجہ سے خوراک کے جزو بدن بننے کا عمل سست پڑ جاتا ہے۔
دیگر جسمانی حالتیں جو بار بار تھکن کا باعث بن سکتی ہیں ان میں طویل عرصے تک کووڈ میں مبتلا رہنا، ہارمونز کی تبدیلیاں اور اوبسٹرکٹیو سلیپ اپنیا شامل ہیں جو ایک سانس کا مسئلہ ہے جو نیند کے دوران پیش آتا ہے۔ گلے کے پٹھے بار بار ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، جس سے سانس لینے کے عمل میں خلل پڑتا ہے۔
خواتین کے لیے تھکن کا تعلق حیض کے سے بھی ہو سکتا ہے۔ خاص طور پرحیض سے پہلے کا وقت جب اس مرحلے کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور بہت سی خواتین اس دوران خاصی تھکن محسوس کرتی ہیں۔
عام طرز زندگی اور صحت بھی اس بات میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں کہ ہم خود کو کتنا تھکا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صوفی باسٹاک، جو بینسنز فار بیڈز میں نیند کی ماہر ہیں، کہتی ہیں کہ ’اگر آپ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں تو آپ جسمانی مشقت اور ذہنی دباؤ دونوں کے لیے زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔ صحت مند غذا بھی ناقص غذائیت کی وجہ سے ہونے والی توانائی کی کمی سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔‘
روزمرہ کی تھکن سے نمٹنے کے لیے پوری غذا لینا ایک عام تجویز ہے۔ مثال کے طور پر پتوں والی سبزیاں، گریاں، بیج، اور ہلکی پھلکی پروٹین، جو ایک مکمل غذا میں حصہ ڈالتے ہیں اور تھکن کی سطح کو نمایاں طور پر کم کر سکتے ہیں۔ کچھ اتنا سادہ جتنا کہ کافی پانی نہ پینا بھی ہمیشہ تھکاوٹ محسوس کرنے کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر رائے کہتی ہیں: ’پانی کی کمی تھکن کی ایک عام وجہ ہے اور یہ بات مشہور ہے کہ زیادہ تر افراد کافی پانی نہیں پیتے۔ پانی کی کمی خون کی مقدار کو کم کر دیتی ہے جس سے دل کے لیے آکسیجن اور غذائی اجزا کو پٹھوں اور اعضا تک پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے جس سے تھکن کا احساس ہوتا ہے۔‘
پانی خلیاتی افعال اور دماغ کے کام کے لیے بھی ضروری ہے اور یہ ہمارے الیکٹرولائٹس کے توازن کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے، جو پٹھوں کے کام اور توانائی کے لیے انتہائی اہم ہے۔
پانی کی مثالی مقدار کا انحصار عمر اور سرگرمی کی سطح پر ہوگا لیکن عام طور پر برطانوی نینشل ہیلتھ سروس چھ سے آٹھ گلاس پانی روزانہ پینے کی سفارش کرتی ہے۔
بلاشبہ کچھ لوگوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے آپ اپنے ان دوستوں سے حسد محسوس کر سکتے ہیں جو صرف چند گھنٹے کی نیند پر گزارا کر لیتے ہیں جب کہ آپ کو اپنی آٹھ گھنٹے کی نیند مکمل نہ ہونے پر مشکل پیش آتی ہے۔
ڈاکٹر رائے کہتی ہیں کہ ’نیند کے لیے عمومی سفارش رات کو سات سے نو گھنٹے کی نیند ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ جسم کی سنیں۔‘ تاہم یہ عمل مختلف طبی کیفیات یا دائمی بیماریوں سے متاثر ہو سکتا ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اس کے علاوہ جینیاتی عوامل بھی ہو سکتے ہیں، جیسا کہ شارٹ سلیپ سنڈروم، جو ایک ایسی حالت ہے جس میں آپ کو زیادہ تر لوگوں سے کم نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
’آپ زیادہ تر رات کے وقت میں چھ گھنٹے یا اس سے کم سو سکتے ہیں اور پھر بھی چستی اور مکمل آرام محسوس کر سکتے ہیں۔‘
جسمانی وجوہات کے علاوہ تھکن کے کئی نفسیاتی اسباب بھی ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک سب سے بڑی وجہ ذہنی دباؤ ہے جو ہمارے کورٹیسول ہارمون کو بڑھا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں نیند میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔
کرس میڈن، جو دی میڈن کلینک میں ٹراما اور انزائٹی تھراپسٹ ہیں، کہتے ہیں کہ ’جن لوگوں کے ساتھ میں کام کرتا ہوں ان کی اکثریت تھکن کا شکار ہوتی ہے اور اس کی وجہ زیادہ فعال اعصابی نظام ہوتا ہے۔’دائمی دباؤ، بے چینی، اور کسی سانحے کے برقرار اثرات اعصابی نظام کو زیادہ متحرک کر سکتے ہیں جس سے جسم مسلسل ’لڑو یا بھاگو‘ کی حالت میں رہتا ہے۔
’ڈپریشن بھی توانائی اور حوصلے کو ختم کر سکتا ہے جس سے تھکن کا ایک مستقل سلسلہ پیدا ہوتا ہے کیوں کہ لوگ اپنے آپ کو مسلسل انتہائی چوکنا ہونے کی حالت میں پھنسے ہوئے محسوس کرتے ہیں جس میں وہ ہر وقت بے چین رہتے ہیں۔‘ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ تھکن محسوس کرنا، جیسا کہ اوپر دی گئی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے، اور دائمی تھکن کا تجربہ کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ دائمی تھکن عام طور پر کسی زیادہ سنگین جسمانی مسئلے کی علامت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر فاکس آن لائن فارمیسی سے وابستہ ڈاکٹر ڈیبرا لی کہتی ہیں کہ ’یہ حالت اب بھی بہت کم سمجھی جاتی ہے اور اکثر طب کے پیشے میں اس کی شناخت نہیں کی جاتی۔ خاص طور پر شدید نوعیت کی بیماری کی صورت میں اس کے علاج کا کوئی واضح طریقہ موجود نہیں ہے۔
’چھ ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی تھکن کو عام طور پر کرونک فٹیگ سنڈروم یا میالجک اینسفالائٹس (ایم ای) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ، کم سمجھی جانے والی اور معذور کر دینے والی بیماری ہے، جو اکثر پٹھوں کے درد، پٹھوں کی کمزوری، اور سر درد کے ساتھ ہوتی ہے۔‘ یہ بیماری ذہنی مسائل کا سبب بھی بن سکتی ہے جن میں دماغی دھند بے خوابی اور روشنی یا آواز جیسی چیزوں کے لیے حساسیت شامل ہو سکتی ہے۔
ایم ای کی تشخیص کرنا بہت مشکل ہو سکتا ہے کیوں کہ اس کی علامات بہت سی دیگر حالتوں سے جڑی ہو سکتی ہیں۔ تاہم، اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کی تھکن کسی بھی طرح سے غیر معمولی ہے تو بہترین کام یہ ہے کہ اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
وہ آپ کو یہ سمجھنے میں مدد کر سکتے ہیں کہ آپ کی تھکن بنیادی طور پر جسمانی وجوہات کی بنا پر ہو رہی ہے یا نفسیاتی وجوہات اس کا سبب ہیں اور پھر اس کے مطابق اگلے اقدامات کریں گے۔ چاہے تھکن کی وجہ معلوم کرنا مشکل ہو پھر بھی ہم اپنی روزمرہ زندگی میں کم تھکاوٹ محسوس کرنے کے لیے کچھ آسان اقدامات کر سکتے ہیں۔ اس میں شراب اور چینی کا استعمال ختم کرنا شامل ہے۔ کیوں کہ یہ دونوں خون میں شوگر کی سطح میں اضافے کا باعث بنتی ہیں جو بعد میں تھکن پیدا کرتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میڈن کے مطابق: ’سورج کی روشنی میں وقت گزارنا، چاہے تھوڑی دیر پیدل چلنا ہی کیوں نہ ہو، آپ کے جسم کی گھڑی کو دوبارہ ترتیب دینے اور چستی میں بہتری لانے میں مدد دے سکتا ہے۔ 20 منٹ کا قیلولہ بھی آپ کو دوبارہ توانائی فراہم کر سکتا ہے، بغیر رات کی نیند پر اثر ڈالے۔ اور پرسکون رہنے کے طریقے سیکھنا، جیسے کہ گہری سانس لینے کا ایک طریقہ جو اعصابی نظام کو دوبارہ ترتیب دینے میں مدد دیتا ہے، فوری سکون فراہم کر سکتا ہے۔‘
اپنے مجموعی ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے طریقوں پر کام کرنا بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے اس کا مطلب دوستوں اور خاندان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا ہو سکتا ہے جب کہ دوسروں کے لیے اس کا مطلب اپنی ورزش کی سطح میں اضافہ کرنا ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر لیوک پاولز، ایسوسی ایٹ کلینیکل ڈائریکٹر، بوبا ہیلتھ کلینکس، تجویز کرتے ہیں کہ ’یوگا، تائی چی، یا جِم کی کلاسز جیسی سرگرمیاں آپ کو اپنے جسم کو حرکت دینے اور اچھا محسوس کرنے والے ہارمونز کے اخراج کے نئے طریقے دے سکتی ہیں۔
’اپنے خیالات کو کسی قابلِ اعتماد فرد کے ساتھ شیئر کرنا بھی آپ کے دماغی دباؤ کو کم کر سکتا ہے۔ چاہے وہ کوئی دوست ہو، خاندان کا فرد، کوئی خیراتی ادارہ، یا صحت کا ماہر، کچھ شواہد بتاتے ہیں کہ یہ تھکن کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‘
آخرکار تمام مشورے ایک ہی بات پر آ کر ختم ہوتے ہیں یعنی اپنا خیال رکھنا۔ یہ ایک آسان مشورہ ہے جسے ہم میں سے بہت سے لوگ تہوار کے موسم میں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ چاہے یہ زیادہ شراب پینے اور کم نیند لینے کی وجہ سے ہو یا سسرال والوں کی فکر اور خاندان کے لیے گھنٹوں کھانے پکانے میں مصروف ہونے کی وجہ سے۔
اپنے جسم اور دماغ کا باقاعدگی سے خیال رکھنا تھکن کی سطح کو کم کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ تھکن کی ایک حد ہوتی ہے۔ اور اگر جنوری کے آغاز میں بھی آپ کو اپنی تھکن کے بارے میں خدشات ہوں، تو یہ بہتر ہوگا کہ آپ اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں تاکہ زیادہ سنگین مسائل سے بچا جا سکے۔
© The Independent