شیر دریا سندھ (سنگے کھابب) بلتستان سے خیبرپختونخوا، پنجاب سے ہوتا ہوا سندھ دھرتی میں بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔
اس دریا کے کنارے کنارے کئی تہذیبوں نے جنم لیا ہے، یوں بالائی سندھ میں گلگت بلتستان اور انڈس ویلی تہذیب کا آخری کنارہ سندھ ہے، اس طرح ہم اور آپ دریائے سندھ کے رشتے میں جڑے ہوئے ہیں۔
جدید سندھی ادب کے بانی میرزا قلیج بیگ کے مطابق سندھ کا نام سندھو سے پڑا ہے اور سنسکرت میں سندھو بڑے دریا کو کہتے ہیں۔
اسی طرح چوتھی صدی عیسوی میں چین سے بغرض حصول علم اور مقدس کتابوں کی تلاش میں جو پہلا زائر فاہیان شمالی ہند کی سرحد (گلگت بلتستان) میں پہنچا۔ اس نے لکھا ہے کہ راہ میں بکثرت چٹانیں آتی ہیں اور ان پہاڑوں کے دامن میں ’سن تیو‘ دریا ہے۔
ہماری زبان میں بھی سن بڑے دریا کو کہتے ہیں۔ یوں آپ سندھو کے باشندے اور ہم سن تیو یا سن کے مکین ٹھہرے۔
اس دریا کے آغاز اور اختتام والے علاقوں کی تہذیب و تمدن قدیم ہے۔ گلگت بلتستان کی چٹانوں اور پتھروں میں بنائے سنگی نقوش قبل از تاریخ تک کے ہیں جبکہ سندھ کے موئن جو دڑو کے آثار بھی اسی طرح کی قدامت کو بیان کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ محققین نے ان دونوں علاقوں کوCradle and Crossroads of Civilization کہا ہے۔
اسی بڑے دریائے کا وہ حصہ جہاں ہم گلگت بلتستان والے ہیں، وہ زیادہ تر پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اور ملک کے تین عظیم پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہیں۔
اس 27 ہزار مربع کلومیٹر والے خطے میں ثقافتی تنوع کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں چھوٹی بڑی سات زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے پانچ انڈو آرین خاندان سے جبکہ ایک تبتی اور ایک زبان بروشسکی ہے، جس کے خاندانی پس منظر سے متعلق لسانیات کے ماہرین کی ہنوز تحقیق جاری ہے۔
گلگت بلتستان میں زیادہ تر افراد کی بولی جانے والی زبان شنا کہلاتی ہے جبکہ دوسرے درجے میں بلتی زبان ہے جو تبتو برمن کی مغربی شاخ ہے۔
گلگت بلتستان کا سندھ سے لسانی تعلق بھی ہے اور یہ اس حوالے سے ہے کہ شنا اور سندھی زبان میں حد درجہ مماثلت ہے اور اس کی بنیادی وجہ ان کا آپس میں قریبی خاندانی رشتہ ہے۔
کچھ مثالیں: سن: دریا، سون: سونا، آدی: دی، موہنجو: مرنے والے، ژا: دا: بیٹا وغیرہ وغیرہ۔ یہ موضوع ایک الگ بحث کا متقاضی ہے۔
گلگت بلتستان کے ہزاروں خاندان سندھ کے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں آباد ہیں اور گلگت بلتستان سے باہر یہ ہمارا دوسرا بڑا گھر ہے۔ اور تو اور گلگت بلتستان کے لوگوں کے کان عابدہ پروین سے لے کر شازیہ خشک اور الن فقیر کی مدھر آوازوں سے اسی طرح واقف ہیں جس طرح سندھ والے ہیں۔
اب میں بلتستان کی ایک نابغہ روزگار شخصیت شیخ سحر کو آپ سے متعارف کروانا چاہتا ہوں۔ شیخ ایاز نے تو قانون کی تعلیم پائی اور وائس چانسلر بھی رہے لیکن شیخ سحر نے مروجہ تعلیم کے بجائے مذہبی تعلیم حاصل کی تھی اور یوں دونوں نے تعلیم و تعلم کا کام کیا مگر انداز جدا جدا تھا۔
شیخ غلام حسین سحر ایران، عراق، شام، لبنان اور فلسطین تک آبلہ پائی کرتے رہے اور علم کی پیاس بجھانے کے لیے ہر صاحب علم کے در پر جاروب کشی کی۔ ساری زندگی فقر اور درویشی میں گزاری اور جب 2021 میں دنیا سے پردہ فرمایا تو ایک جوڑہ کپڑہ، گھسے سلیپر اور ایک ڈائری کل متاع حیات تھی۔
شیخ سحر کی فکر بہت بلند تھی اور وہ حیران کن حد تک دنیا بھر کی معیشت، سیاست، جغرافیہ اور جمہوری فکر سے آشنا تھے۔
سیر دنیا کی خاطر ترکی بھی گئے تھے اور مصر کی جامعہ الازہر میں بھی لیکچر دے کر فکر و دانش کے موتی بکھیرے۔ شیخ سحر صاحب کو سندھ سے بڑی محبت تھی اور وہ ہالہ میں بھی رہے اور مخدوم طالب المولیٰ کا بڑا ذکر کرتے تھے۔ انہوں نے بلتی، فارسی، عربی اور اردو میں شاعری کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شیخ سحر نے کچھ زیادہ شعری ورثہ تو نہیں چھوڑا ہے تاہم ان کا معدودے چند کلام ’پیام سحر‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔
یہ میرے بس میں نہیں کہ میں شیخ ایاز کی شاعری پر کوئی نقد و جرح کرسکوں، اس حوالے سے ان پر بڑے محققین نے کئی کتابیں لکھی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
اسی ایاز میلہ میں بھی کئی سال سے تواتر کے ساتھ ان کے فنی محاسن اور نظریہ حیات پر صاحبان علم و دانش نئی روشنی ڈال رہے ہیں۔ ہمالیہ اور قراقرم کے دامن سکردو سے صرف ایک عقیدت مند کے طور پر یہاں حاضری دی ہے۔
سندھ ساگر کا شیخ ایاز اور ہمالیہ و قراقرم کا شیخ سحر دونوں کی شاعری میں محبت، آزادی اظہار اور ترقی کے خواب پنہاں ہیں اور ان کے اظہار کے لیے پیرائے مختلف ہوتے ہوئے بھی قدرے مشترک ہیں۔
شیخ ایاز نے دریائے سندھ کا رگ وید کے حوالے سے کہیں لکھا ہے کہ ’اے سندھو، دیوتاؤں نے تیرے بہاؤ کے لیے کئی راستے بنائے ہیں اور ہاں ان میں سے ایک راستہ میری شاعری بھی ہے۔‘
یقیناً انہوں نے ایک راستہ سندھ ساگر کی زمین میں بنایا ہے تو ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں کے دامن میں کہیں دریائے سندھ کے کنارے شیخ سحر نے بھی ایک الگ راستہ بنانے کے لیے آبلہ پائی ضرور کی ہے۔
انہوں نے بھی اپنی مٹی کی محبت میں وہ کچھ کہنے کی کوشش کی ہے جو شیخ ایاز کی شاعری کا خاصہ ہے۔
وقت کی نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے زندگی اور موت کے عنوانات پر ان دونوں شخصیات کے کلام کے چند ٹکڑے آپ سب کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ندرت فکر دیکھیے اور دریائے سندھ کے ابتدائی کنارہ اور آخری منزل سندھو ساگر کے فکری میلان کا مشاہدہ کریں۔
شیخ ایاز نے کہا ہے:
زندگی کے جال میں اے مہ جبیں
ناچتی خوشیاں پھڑک کر مر گئیں
تھیں وہ سب کتنی حسین
وہ حسیں تھیں یا حسیں تھی کائنات
یوں تو باقی رہ سکے گی کس کی ذات
ہے یہاں ہر ایک شے بے ثبات
اب زندگی کو شیخ سحر کے پیرائے میں دیکھیے!
جب تلک دیکھے گی یہ دنیا سراب زندگی
پی کے کس نے قے نہیں کی ہے شراب زندگی
ایک ایک کلمہ بھرا ہے تلخیوں سے لاکھ لاکھ
میں نے یہ دیکھا، پڑھی ہے جب کتاب زندگی
تیرے بالوں کی سفیدی کیوں مصیبت بن گئی
بشریت میں عام ہیں شیخ و شباب زندگی
اور اب موت پر شیخ ایاز کی سنیے:
آرہی ہے اک صدا
موت کیا ہے؟
جس طرح پوچھے ہوا
موت کیا ہے؟
آدمی بیٹھا بناتا ہے محل
اٹھ کے چل دیتا ہے آخر ایک پل
موت کیا ہے؟
راہ میں لوٹا گیا ہر کارواں
پا سکا کب کوئی منزل کا نشاں
موت کیا ہے؟
اب شیخ سحر کی زبانی سنیے:
ایک ہوا کی لہر کی سی ہے مثال زندگی
اور موت کہلاتی ہے حد کمال زندگی
بعد موت آنکھیں کھلیں گی تب حقیقت دیکھنا
خواب میں بے کار ہے سب قیل و قال زندگی
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔