گلگت بلتستان کی جنگ آزادی میں دو سرحدی علاقے جغرافیائی اور دفاعی لحاظ سے اہم رہے ہیں۔ ایک سکردو، جہاں ڈوگرہ فوج متعین تھی اور کارگل لداخ سے امدادی دستوں کی آمد کے لیے راستہ ہموار تھا۔ دوسرا علاقہ استور کا چلم داسخرم تھا، جہاں سے ایک سرحد برزل کے راستے تراگبل، بانڈہ پور اور سرینگر کی جانب اور دوسری دیوسائی کے بعد شنگھو شغر اور دراس تھی، جہاں سے زوجیلہ پاس کشمیر کو جا نکلتا ہے۔
اسی اہمیت کے پیش نظر گھنسارا سنگھ کی گرفتاری اور یکم نومبر کے دن آزادی کے اعلان کے ساتھ جنگ آزادی کا اصل میدان انہی دو علاقوں میں گرم ہوا اور اصل لڑائی انہی کی سرحدوں پر لڑی گئی۔
جنگ آزادی کے کمانڈروں نے (جو گلگت سکاؤٹس اور چھ جموں و کشمیر کے مسلم افسران پر مشتمل تھے) اہم نوعیت کی جو سٹریٹجی مرتب کی تھی اس کے تحت فورسز کے تین کالم بنائے گئے۔ ایک ایبکس فورس، جس کی سربراہی کرنل احسان علی کے سپرد تھی۔ اسے سکردو کے طرف بھیجا گیا، جبکہ ٹائیگر فورس کرنل حسن خان اور سکیمو فورس کیپٹن شاہ خان کی سربراہی میں چلم داسخرم بھیجی گئیں۔
یہاں سے کرنل حسن خان نے برزل پاس کے بعد گریز، بانڈہ پور اور کیپٹن شاہ خان نے دیوسائی کے راستے گلتری دراس کی طرف بڑھنا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو چلم داسخرم کا علاقہ اہم تزویراتی اہمیت کا حامل تھا۔
ٹائیگر فورس اور سکیمو فورس کے پاس جہاں سپاہیوں کی عددی تعداد کم تھی، وہیں اسلحہ اور دیگر انتظامی امور اور راشن کی قلت کا بھی سامنا تھا۔ چونکہ سرحدیں وسیع اور پھیلی ہوئی تھیں اور بروقت پیش قدمی نہ کرنے کی صورت میں دشمن افواج کی بڑی تعداد میں آمد کا شدید خطرہ تھا، جس سے انقلاب فوری دم توڑ جاتا۔
جب ٹائیگر فورس اور سکیمو فورس چلم داسخرم پہنچی تو یہ اپریل کا مہینہ تھا اور برف اور سردی سے سارا علاقہ یخ بستہ تھا۔ جب جنگ آزادی کے کمانڈروں نے اس علاقے کی عوام سے تعاون اور مدد کی اپیل کی تو سب سے پہلے آگے بڑھنے والوں میں اخون محمد موسیٰ اور محمد ابراہیم کے خاندان تھے، جن کا آبائی نام سوری پوئنلے ہے۔ اسی خاندان کی دیگر شاخیں شنگھو شغر اور فلٹکس میں بھی آباد تھیں۔
اخون محمد موسٰی، جو محمد ابراہیم کے سگے ماموں تھے، کی علمی، سماجی اور جنگ آزادی کی شاندار خدمات کا تذکرہ میں الگ کالم میں کر چکا ہوں۔ اس کالم میں محمد ابراہیم کے حوالے سے بات کی جائے گی۔
میرے سامنے اس وقت کچھ اہم نوعیت کے سرٹیفکیٹس اور کار بیگار سے معافی کی سندیں پڑی ہوئی ہیں، جو محمد ابراہیم کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کے کمانڈروں اور اس وقت کی انتظامیہ نے مختلف اوقات میں دی تھیں۔
ایک سند میں جنرل الطارق کے نام سے دستخط موجود ہے، جو 1947-48 کی کشمیر محاذ جنگ کے کمانڈر جنرل محمد اکبر خان تھے۔
سند کے متن میں کہا گیا ہے کی محمد ابراہیم کا آزاد فورس کی مدد اور جنگ آزادی کے دوران مالی اور جانی تعاون فراہم کرنے پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
جیسا کہ ذکر ہوا کہ سکاؤٹس نے بے سروسامانی کے عالم میں جنگی سرگرمیاں شروع کی تھیں نیز سرد موسم کی وجہ سے فیلڈ آپریشن اور بھی مشکل بن گیا تھا۔ ایسی صورتحال میں چلم داسخرم علاقے کی عوام نے دل کھول کر مدد کی، جس کا سہرا محمد ابراہیم اور اخون محمد موسیٰ کے سر جاتا ہے۔
چلم داسخرم سے آگے برزل اور دراس جانے کی مشکلات اور تکالیف کا ذکر کرنل حسن خان اور گروپ کیپٹن شاہ خان نے اپنی اپنی خود نوشت سوانح عمریوں میں جا بجا کیا ہے۔ ان کے علاوہ کرنل پاشا کمانڈنٹ گلگت سکاؤٹس، جو بعد میں بریگیڈیئر اسلم خان کے نام سے معروف تھے، نے بھی اس علاقے کے لوگوں کی مدد اور خدمات کو سراہا ہے۔ محمد ابراہیم کے دوسرے بیٹے قمبر علی کا کہنا ہے کہ جب والد محترم کو خرابی صحت کی وجہ سے ایک دفعہ بغرض علاج سکردو سے اسلام آباد لےجانا پڑا تو پی آئی اے کی اسی فلائٹ میں بریگیڈیر محمد اسلم خان بھی عازم سفر تھے۔ بریگیڈیئر صاحب نے محمد ابراہیم کو پہچاننے کے بعد دیر تک ان کا دایاں ہاتھ تھامے رکھا اور بار بار یہ کہتے تھے کہ ابراہیم آپ لوگوں کی جدوجہد اور پرخلوص تعاون سے دیکھو گلگت بلتستان کا خطہ آزاد ہوا اور ہم سب آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔
بریگیڈیئر صاحب جب 1947-48 میں چترال سکاؤٹس کے کمانڈنٹ تھے تو جنگی آپریشن کی وجہ سے چلم داسخرم آتے جاتے رہے تھے جہاں ان کے فورس کی محمد ابراہیم اور دیگر خاندان والوں نے دامے درمے سخنے مدد کی تھی، جسے وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
علاوہ ازیں اس دور کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے انہی خدمات کے اعتراف کے طور پر محمد ابراہیم اوران کے خاندان کو کار بیگار سے معافی کا پروانہ بھی جاری کیا تھا۔
محمد ابراہیم کی سن پیدائش غالباً 1905 کی ہے، وہ حاجی حیدر قلی کے بڑے بیٹے تھے۔ دیگر بیٹوں میں صوبیدار یوسف علی، غلام حسین، محمد ایوب اور محمد حنیف تھے، جبکہ چار بہنیں بھی تھیں۔ حاجی حیدر قلی نے ایک سے زیادہ حج کیے اور کئی مرتبہ زیارات مقدسہ کی قدم بوسی کا شرف بھی حاصل کیا۔ اس وقت چک داسخرم سے زاد راہ اٹھائے طویل پیدل اور سمندری جہاز کے ذریعے سفر کرکےحج کیا اور غالباً اوہ س علاقے کے پہلے فرد تھے جنہوں نے یہ سعادت حاصل کی تھی۔ تزکیہ نفس کے لیے اپنی زمین کا بڑا حصہ رد مظالم کے طور پر راہ خدا میں خرچ کیا۔
محمد ابراہیم کو ماں باپ کی طرف سے لاڈ پیار بہت ملا جس کا اثر ان کی زندگی میں عمر بھر رہا۔ محمد ابراہیم کے والد حیدر قلی دیگر خاندان کے افراد کی طرح گنیال شنگھو شغر سے داسخرم استور کے گاؤں چک اور درلہ میں آباد ہوئے تھے ۔ غالباً 1914 سے پہلے کا قصہ ہے کیونکہ شنگھو شغر کے 1914 کی بندوبست اراضی کے کاغذات میں انہیں حصورہ (استور) گئے ہیں لکھا گیا ہے۔
حیدر قلی اپنے عزیزوں کے ساتھ چک گاؤں میں بس گئے جب کہ ان کے خاندان کے دیگر افراد نے درلہ گاؤں کو آباد کیا۔ محمد ابراہیم کی والدہ اخون موسیٰ ، غلام حیدر، حاجی ابراہیم اور اخون محمد کی بہن تھی۔
اس دور میں درلہ اور چک گاؤں میں تعلیمی سہولیات نہیں تھی لہذا محمد ابراہیم نے گھر میں ابتدائی مذہبی تعلیم کے بعد پرائمری سطح کی تعلیم استور خاص کے پرائمری سکول سے حاصل کی۔ چونکہ مڈل سطح کی تعلیم کی سہولت نہیں تھی اور گھریلو ذمہ داریوں نے انہیں کام کاج کی طرف مائل کیا۔ اس وقت علاقے میں کوئی خاص کاروباری مواقع بھی موجود نہیں تھے تاہم جتنی سہولت دستیاب تھی اسی کے حساب سے کام میں مشغول رہے۔
ابتدا سے ان کا رہن سہن اور بود و باش مختلف اور منفرد تھے۔ لہذا لباس خاص وضع کا اور اٹھنا بیٹھنا صاحب فکر لوگوں کے ساتھ رہا تھا۔ انہیں شِنا کے علاوہ، بلتی، اردو، فارسی اور کشمیری زبانوں پر بھی بہترین دسترس حاصل تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی امان اللہ خان، راجہ ذوالفقار علی خان، وزیر صادق ، آغا احمد علی شاہ، خواجہ محمد خان کے والد، فدا محمد ناشاد کے علاوہ سید اسد زیدی اور ان کے بڑوں سے ذاتی تعلق داری تھی۔ علاوہ ازیں گلگت بلتستان کے دیگر کئی اہم افراد سے بھی تعلق تھا۔
فدا محمد ناشاد صاحب نے مجھے خود بتایا کہ محمد ابراھیم کا حافظہ کمال کا تھا جب کہ کم تعلیم کے باوجود ان کو فارسی پر بڑی گرفت حاصل تھی۔ ناشاد صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے کئی معروف فارسی اشعار کی بہترین تشریح محمد ابراھیم سے سنی اور اسے ذاتی ڈائری میں شوق سے نوٹ بھی کیا۔
دو دوسری شخصیات کا ذکر کروں جنہوں نے محمد ابراہیم کی ذہنی صلاحیتوں کا برملا اعتراف کیا تھا۔
کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین امان اللہ خان سے ایک دفعہ لبریشن سیل آفس راولپنڈی میں ملاقات ہوئی، جس میں بشارت ساقی بھی شریک تھے ۔ امان اللہ خان نے ہمیں بتایا کہ وہ محمد ابراہیم سے بڑے متاثر تھے کیونکہ انتہائی دور افتادہ علاقے میں پیدا ہونے کے باوجود انہیں دنیا کی تاریخ اور عصری حالات سے بڑی واقفیت حاصل تھی۔ امان اللہ خان جب کبھی سکردو آتے تو محمد ابراہیم سے ضرور ملتے تھے اور حاجی محمد اکبر خان کے گھر ٹھہرتے تھے۔
بلتستان کے ممتاز مورخ اور انشا پرداز سید محمد عباس کاظمی نے کئی دفعہ ذکر کیا کہ وہ محمد ابراھیم کی تاریخ شناسی کے دلی طور پر معترف تھے۔ انہوں نے بار بار مجھے اس کمزوری کا احساس دلایا کہ ہم نے ان سے خاطر خواہ مواد اکھٹا نہیں کیا اور واقعتاً اس حوالے سے ہم سے بڑی سستی ہوئی۔ تبت ہو یا کشمیر و لداخ، جنوبی ایشیا ہو یا ایران و چین وہ ہر علاقے کے جغرافیہ اور تاریخی واقعات سے واقف تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب ہم غالباً میٹرک میں تھے تو ایک دفعہ ان کی پائنتی قدموں سے لگے بیٹھے ہوئے تھے جبکہ وہ ہمیں تبت کے دلائی لامہ اور برصغیر کی ملکہ رضیہ سلطانہ دونوں کی دلچسپ تفصیل بتانے لگے۔ گو کہ اس وقت ہمیں ان دونوں شخصیات کا حدود اربعہ تک معلوم نہیں تھا۔ بس کہانی سمجھ کر سنتے رہے۔
وہ حیران کن حد تک تیز یاداشت کے مالک تھے اور ہر قسم کی معلومات کا ایک خزینہ تھے۔ پیران سالی میں بھی وہ اپنے گھر میں ایک بڑی تخت نما چارپائی پر فروکش رہتے اور عزیز و اقارب ان کے ارد گرد حلقہ زن ان کی دلچسپ باتوں اور بذلہ سنجی سے محظوظ ہوتے تھے۔ نفاست کا یہ عالم تھا کہ اپنے لیے سبز چائے بھی خود بناتے اور دوسرے کے ہاتھوں بنی چائے کو شاذ ہی پسند کرتے تھے۔ کئی بار زیارت مقدسہ کے لیے تشریف لے گئے اور بڑھتی عمر کے باوجود خود ریل اور بسوں میں اکیلا سفر کیا اور کسی پر کبھی بوجھ نہیں بنے۔
محمد ابراہیم اپنے خاندان سمیت 70 کی دہائی میں سکردو منتقل ہوئے تھے اورسکردو شہر کے محلہ حاجی گام میں مقیم تھے۔ وہ 88 سال کی عمر میں اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے اور قتل شریف سکردو میں آسودہ خاک ہیں۔
محمد ابراہیم کے بڑے بیٹے محمد دلاور خان فوج میں صوبیدار کے عہدہ پر فائز رہے۔ بعد ازاں سماجی خدمت کے جذبے کے تحت 15 سال میونسپل کمیٹی سکردو کے ممبر بھی رہے۔ وہ سیاسی اور سماجی لحاظ سے بہت متحرک اور ہردلعزیز تھے یہی وجہ تھی کی اہل بلتستان نے انہیں بڑی عزت دی۔