سندھ کے ضلع تھرپارکر کے مختلف گاؤں میں مور کے پنکھ (پروں) سے بنے ہاتھ کے پنکھے بنانے کا رواج ہے اور اس علاقے میں بسنے والی مینگھواڑ ، کولہی اور لوہار برادری کی خواتین یہ کام کرتی ہیں۔
بارش کے موسم میں خاص کر کے ستمبر کے مہینے میں مور اپنے پرانے پنکھ گرا دیتے ہیں اور ان کے جسم پر نئے پَر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ایسے میں اونہیر، کاری تل، اون جو وانڈھیو، کاسبو اور دیگر گاؤں سے تعلق رکھنے والے افراد یہ پنکھ جمع کر کے ہاتھ کے پنکھے بنانے والی خواتین کو فروخت کرتے ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین بھی پنکھ اکھٹے کرنے کا کام کرتی ہیں۔
اس کام سے وابستہ ایک خاتون مینا لوہار بتاتی ہیں کہ انہوں نے یہ کام اپنی دادی سے سیکھا تھا۔
بقول مینا: ’پہلے 50 پیسے کا ایک مور کا پنکھ ملتا تھا، اب اس کی قیمت بڑھ کر 25 روپے ہو گئی ہے۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بعض پنکھوں میں مور کے پروں کے علاوہ ریشم کے دھاگوں کا کام بھی کیا جاتا ہے۔
مینا کے مطابق بعض خواتین ایک پنکھا اکیلے بنا سکتی ہیں جبکہ کبھی کبھار تین سے چار خواتین مل کر یہ پنکھے بناتی ہیں۔ اسی طرح اس میں لکڑی یا چمڑے کا کام اس میں مہارت رکھنے والے افراد سے کروایا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مور کے پروں کی بڑی اہمیت ہے، انہیں مقدس مذہبی کتابوں میں بھی رکھا جاتا ہے اور اس سے مختلف چیزیں بھی بنائی جاتی ہیں۔
مور کے پروں سے بنائے جانے والے ان ہاتھ کے پنکھوں کے مختلف طرح کے ڈیزائن ہوتے ہیں۔
دورِ قدیم میں بادشاہوں کے درباروں میں یہ پنکھے استعمال کیے جاتے تھے۔
تھرپارکر میں جب شروع شروع میں یہ پنکھے بنائے گئے تو انہیں فروخت کرنے کی روایت نہیں تھی۔ مینا بتاتی ہیں کہ اس وقت یہ صرف بیٹیوں کو جہیز میں دیے جاتے تھے یا پھر کسی مہمان کو تحفے کے طور پر دیے جاتے تھے۔
اب جب سے تھر میں بارشوں کے موسم میں سیاحت بڑھی ہے تو مور کے پروں سے بنے ہاتھ کے یہ پنکھے مختلف دکانوں پر فروخت ہوتے نظر آتے ہیں۔ انہیں سیاح بڑے شوق سے خریدتے ہیں اور اپنے ڈرائنگ رومز میں بطور شو پیس سجاتے ہیں اور یہاں سے خرید کر دوستوں کو بھی گفٹ کرتے ہیں۔
تھر کی مارکیٹ میں یہ پنکھے عام دکانوں پر یہ ایک ہزار سے لے کر 2500 روپے تک میں مل جائیں گے۔