انڈیا نے جمعے کو تبت میں مجوزہ میگا ہائیڈرو پاور ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے اپنے خدشات سے چین کر آگاہ کر دیا۔ انڈیا نے کہا کہ ’وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گا اور صورت حال پر نظر رکھے گا۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگر ڈیم تعمیر ہو گیا تو وہ چین کے وسطی علاقے میں دریائے یانگتزی پر واقع ریکارڈ توڑ تھری گورجز ڈیم سے بھی بڑا ہو گا۔ یہ ڈیم انڈیا اور بنگلہ دیش کے لاکھوں لوگوں کے لیے ممکنہ طور پر سنگین اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
گذشتہ ماہ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا کی ایک رپورٹ میں اس منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا۔
یہ ڈیم دریائے ’یارلنگ سانگپو‘ (تبت میں) اور انڈیا میں ’براہما پتر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسے بیجنگ کے کاربن کے اخراج میں کمی کے اہداف اور تبت کے علاقے کی اقتصادی ترقی کے منصوبوں سے جوڑا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعے کو کہا: ’چین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بالائی علاقوں میں اپنی سرگرمیوں سے برہم پتر کی زیریں ریاستوں کے مفادات کو نقصان نہ پہنچائے۔‘
جیسوال نے صحافیوں کو بتایا کہ ’نئی دہلی نگرانی جاری رکھے گی اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا کو دریائی پانیوں پر حقوق حاصل ہیں اور ’ہم نے مسلسل اپنی آرا اور خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اس (چینی) علاقے میں دریاؤں پر بڑے منصوبوں کے حوالے سے۔
’تازہ ترین رپورٹ کے بعد یہ خدشات شفافیت اور زیریں ملکوں سے مشاورت کی ضرورت کے ساتھ دہرائے گئے۔‘
گذشتہ ماہ چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ بیجنگ نے ’سرحد پار دریاؤں کی ترقی کے حوالے سے ہمیشہ ذمہ دارانہ رویہ اپنایا ہے۔‘
اور یہ بھی کہا کہ پن بجلی کا منصوبہ ’صاف توانائی کی ترقی کو تیز کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا۔‘
وزارت کا کہنا تھا کہ ’یہ زیریں علاقوں پر منفی اثرات نہیں ڈالے گا۔‘ اور یہ بھی کہا کہ ’ہم دریاؤں کے کنارے پر واقع ممالک کے ساتھ رابطہ برقرار رکھیں گے۔‘
زیریں علاقوں کے خدشات کے علاوہ، ماضی میں ماحولیاتی ماہرین نے بھی خبردار کیا ہے کہ ایسے میگا منصوبے ماحولیاتی لحاظ سے حساس تبت کے خطے پر ناقابل تلافی اثر ڈال سکتے ہیں۔
انڈیا اور چین، جو پڑوسی اور حریف ایشیائی طاقتیں ہیں، ہزاروں کلومیٹر کی متنازع سرحدوں کے مالک ہیں جہاں دونوں جانب ہزاروں فوجی تعینات ہیں۔