ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بدھ کو وزیراعلیٰ پنجاب کے کیمپ آفس کے لیے وفاقی ماحولیاتی ادارے سے اجازت طلب کیے بغیر تعمیرات سے ہیریٹیج سائٹ کو نقصان پہنچنے اور سینکڑوں درخت کاٹے جانے کا انکشاف ہوا ہے، جس پر کمیٹی نے نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔
بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس سینیٹر شیری رحمٰن کی زیر صدارت ہوا، جہاں راول جھیل و ڈیم سے متعلق بریفنگ دی گئی۔
اجلاس کے دوران پاکستان انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کی ڈائریکٹر جنرل فرزانہ الطاف نے کمیٹی کو بتایا کہ سمال ڈیم پنجاب پروجیکٹ کی جانب سے راول ڈیم پر منصوبے کے تحت کام ہو رہا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ماحولیاتی طور پر درست عمل نہیں ہے اور اس کے لیے درخت بھی کاٹے جا رہے ہیں۔ یہ تمام کام اجازت لیے بغیر ہو رہا ہے اور انہیں متعدد مرتبہ نوٹس بھی دیا گیا ہے۔‘
ای پی اے کے حکام نے کہا کہ سمال ڈیم پنجاب پراجیکٹ کی انتظامیہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور وفاقی حکومت کی اجازت لیے بغیر درخت کاٹ رہی ہے اور اب تک کئی درخت کاٹے جا چکے ہیں۔
ای پی اے نے مزید کہا کہ راول ڈیم کے سپل ویز کے پاس کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی، تاہم اس کے ساتھ کی جانے والی تعمیرات کی اجازت نہیں دی گئی۔
اجلاس کے دوران صوبہ پنجاب کے محکمہ زراعت کے عہدیدار محمد عامر نے اسی معاملے پر بات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ یہاں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کیمپ آفس تعمیر کیا جا رہا ہے۔
ای پی اے کی ڈائریکٹر جنرل فرزانہ الطاف نے کہا کہ صوبائی حکومت کو متعدد بار نوٹس بھیجنے کے باوجود ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ ’یہ ایسی جگہ تعمیراتی کام کر رہے ہیں جہاں کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ یہ ہیریٹیج سائٹ ہے، اسے بھی ختم کر رہے ہیں کیونکہ اسی جگہ پر ایک مندر بھی موجود ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا یہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور مقررہ جگہ کی بجائے دوسری طرف چلے گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقعے پر سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے، لیکن بنی گالا بھی تو غیر قانونی زمین پر تعمیر کردہ ہے۔
بعد ازاں کمیٹی نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔ انہوں نے سینیٹر شاہ زیب درانی کو موقعے پر جا کر اسے دیکھنے کہا اور ای پی اے کو صورت حال سے متعلق بریفنگ دینے کی ہدایت کی۔
اجلاس میں راول ڈیم کی سیوریج سے متعلق معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ سی ڈی اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ڈیم سے روزانہ کی بنیاد پر چھ ملین گیلن سیوریج نکلتا ہے جبکہ ای پی اے کی ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ اس میں 64 فیصد سیوریج اسلام آباد سے جبکہ 36 فیصد سیوریج مری سے آتا ہے۔
سی ڈی اے حکام نے بتایا راول ڈیم روزانہ 28 ملین گیلن پانی راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کو فراہم کرتا ہے، جس میں سے 24 ملین گیلن پانی راولپنڈی میں گھریلو استعمال جبکہ دو ملین گیلن پانی سی ڈی اے کے ذریعے اسلام آباد میں گھریلو استمعال کے لیے کیا جاتا ہے۔ بقیہ دو ملین گیلن پانی نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سینٹر استمعال کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ کمیٹی اجلاس کے دوران راول ڈیم کی گندگی اور سیوریج کے تعین سے متعلق جو اعداد و شمار جمع کروائے گئے، وہ انتہائی دھندلے ہونے کے باعث پڑھنے کے قابل نہیں ہیں۔
اجلاس کے بعد ڈی جی ای پی اے فرزانہ الطاف نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ ’شاید وزیراعلیٰ پنجاب کو ان غیر قانونی تعمیرات سے متعلق علم نہیں ہے، کیونکہ جہاں ایک جانب سموگ کے تدارک کے لیے صوبہ پنجاب میں کام ہو رہا ہے، وہیں دوسری جانب راول ڈیم و جھیل کے اطراف میں سینکڑوں درخت کاٹے جا چکے ہیں اور غیر قانونی تعمیرات ہو رہی ہیں۔ انہیں اس کا نوٹس لینا چاہیے۔‘