پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی سمگلنگ کی روک تھام اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی سے متعلق پیر کو ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انسانی سمگلروں کی ’جائیدادوں اور اثاثوں کی ضبطگی‘ کے لیے فوری قانونی کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔
گذشتہ ماہ یونان کے جنوبی جزیرے کے قریب پیش آنے والے واقعے میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں متعدد پاکستانی بھی سوار تھے۔
اجلاس کے بعد جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’اس مکروہ دھندے میں ملوث تمام افراد کے خلاف استغاثہ کے عمل کو مزید مؤثر بنایا جائے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی سمگلنگ میں ملوث سرکاری اہلکاروں کے خلاف کیے گئے حالیہ اقدامات پر وفاقی تحقیقات ادارے (ایف آئی اے) کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’انسانی سمگلروں کے سہولت کار سرکاری افسران کے خلاف حالیہ تادیبی کارروائیوں کا آغاز خوش آئند ہے۔‘
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ سہولت کاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کے بعد سخت تعزیری اقدامات بھی لیے جائیں۔ ’ملک میں تمام انسانی سمگلنگ کے گروہوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے، تاکہ وہ نشان عبرت بنیں۔‘
انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ بیرون ملک سے انسانی سمگلنگ کا دھندہ چلانے والے پاکستانیوں کے لیے متعلقہ ممالک سے رابطہ کرے اور ان کی پاکستان حوالگی کے حوالے سے جلد از جلد اقدامات اٹھائے۔
’وزارت اطلاعات و نشریات، وزارت داخلہ کے تعاون سے عوام میں بیرون ملک نوکریوں کے لیے صرف قانونی راستے اختیار کرنے کی، آگاہی مہم چلائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ملک میں ایسے ٹیکنیکل ٹریننگ اداروں کی ترویج کی جائے جو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق سرٹیفائیڈ پیشہ ور افراد بیرون ملک مارکیٹ کو فراہم کرسکیں۔‘
اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا کہ ہوائی اڈوں پر بیرون ملک جانے والے افراد کی سکریننگ کا عمل مزید مؤثر بنایا جائے۔
غیر قانونی تارکین وطن کی کشتیاں ڈوبنے کے واقعات کے بعد اس سے قبل بھی پاکستان میں ان عناصر کے خلاف کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں جو کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث رہے ہیں البتہ یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا۔
گذشتہ ماہ کی 20 تاریخ کو ایک اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے اضلاع گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ اور منڈی بہاؤ الدین کے اضلاع سے سب سے زیادہ افراد انسانی اسمگلروں کا شکار ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی سمگلنگ کو بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا جاتا رہا ہے کہ زیادہ تر مجبور لوگ اس جرم کا نشانہ بنتے ہیں۔