نواز کے نام کی ’رشوت‘ اور عمران کی خاموشی

عارف نقوی پاکستان تحریک انصاف کی فنڈنگ بھی کر چکے ہیں اور اس کے علاوہ حکومت کو مشاورت بھی فراہم کرتے رہے ہیں۔

عارف نقوی نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ابراج گروپ کی ملکیت کے الیکٹرک کی فروخت پر معاونت حاصل کرنے کے لیے نواز شریف کے قریبی دوست نوید ملک کو دو کروڑ ڈالر رشوت کی مبینہ پیشکش کی تھی (اے ایف پی)

وزیراعظم عمران خان نے نیو یارک میں ایک حالیہ تقریر میں کہا کہ انہیں ووٹ کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے نام پر ملے ہیں مگر ابراج گروپ کا کیس ایک ایسا کیس ہے جو تحریک انصاف کے احتسابی عمل کے غیر جانبدار ہونے پر سوال کھڑے کرتا ہے۔

ابراج گروپ کے کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی پر دو کروڑ ڈالر کی رشوت کی پیشکش کا الزام ہے مگر اس الزام کو ایک سال ہونے کو ہے اور اس پر اب تک کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی۔

سوال کیا جاتا ہے کہ تحریک انصاف نے اس الزام پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی اور تحریک انصاف حکومت نے یہ کیوں معلوم نہیں کیا کہ اس پیشکش کی خبروں میں کتنی صداقت تھی اور کیا نواز شریف کے قریبی ساتھی نوید ملک کو واقعی دو کروڑ ڈالر ملے اور اگر ملے تو کیا اس رقم کا کچھ حصہ شریف برادران کی جیب میں بھی گیا یا نہیں؟

اکتوبر 2018 میں موقر امریکی اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘ میں انکشاف ہوا کہ مشرق وسطیٰ کے سرمایہ کار گروپ ابراج کے سربراہ عارف نقوی نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ابراج گروپ کی ملکیت کے الیکٹرک کی فروخت پر معاونت حاصل کرنے کے لیے نواز شریف کے قریبی دوست نوید ملک کو دو کروڑ ڈالر رشوت کی مبینہ پیشکش کی تھی۔

وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے دیے گئے مختلف انٹرویوز اور تقاریر میں بدعنوانی کے خلاف کھل کر بات کی اور ماضی میں بھی وہ کسی بھی سیاستدان کو این آر او (معافی) دینے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے احکامات کے پیش نظر گذشتہ دو حکومتی ادوار میں حاصل کیے گئے قرضوں کے استعمال کی تحقیق کے لیے بھی کمیشن قائم کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جہاں موجودہ حکومت ماضی کے حکمرانوں کے احتساب میں پیش پیش ہے وہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ نیو یارک اور متحدہ عرب امارات کی عدالتوں میں چلنے والے کیسوں اور اچھی ساکھ کے حامل بین الاقوامی اخبار ’وال سٹریٹ جرنل کی خبر کے باوجود حکومت کارروائی کرتی دکھائی نہیں دیتی۔

ابراج گروپ کا کیس ایسا ہے جس میں نواز شریف کے قریبی ساتھی نوید ملک کو دو کروڑ ڈالر رشوت کی پیشکش کا دعویٰ کیا گیا تھا مگر تحریک انصاف حکومت نے آج تک اس کیس کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ کی خبر کے بعد نیو یارک کی عدالت میں ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی اور دیگر شراکت داروں کے خلاف کیس میں عائد فرد جرم میں بھی پاکستان میں موجود سیاستدانوں کو پیسے دینے کے عمل کو کارروائی کا حصہ بنایا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر اعظم کے معاون برائے میڈیا افتخار درانی، وزیراعظم کی پریس سیکریٹری شہیرا شاہد، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اور نیب سے اس حوالے سے رابطہ کیا مگر کسی کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا۔

حکومت کارروائی کیوں نہیں کر رہی؟

کراچی کو بجلی فراہم کرنے والا ادارہ کے الیکٹرک ابراج گروپ کی ملکیت ہے اور گذشتہ کئی سالوں سے ابراج گروپ کے الیکٹرک کو چینی کمپنی شنگھائی الیکٹرک کو بیچنے کی کوشش کر رہا ہے مگر گذشتہ حکومت کی طرف سے کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے فروخت ابھی تک مکمل نہیں ہو پائی۔ اسی حوالے سے ’وال سٹریٹ جرنل‘ کی خبر کے مطابق عارف نقوی نے فروخت میں معاونت کے لیے نواز شریف کے قریبی ساتھی نوید ملک کو مبینہ طور پر رشوت کی پیشکش کی۔

جب یہ خبر ’وال سٹریٹ جرنل‘ نے بریک کی تب حکومت کی طرف سے ظاہری دلچسپی دکھائی گئی۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اکتوبر 2018 میں ’اے آر وائی ٹی وی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’وال سٹریٹ جرنل‘ کی خبر پر وزیر اعظم عمران خان کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔

اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے سابق گورنر سندھ اور نجکاری کمیشن کے سابق چیئرمین محمد زبیر سے رابطہ کیا۔ محمد زبیر کا گذشتہ دور حکومت میں کے الیکٹرک کے معاملے میں اہم کردار تھا۔

ان سے پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں موجودہ حکومت نے مبینہ رشوت کے حوالے سے ابھی تک کارروائی کیوں نہیں کی تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں نواز شریف اور شہباز شریف اور عارف نقوی کے درمیان کسی بھی تعلق کی خبر نہیں مگر ہو سکتا ہے کہ کوئی تعلق ہو۔

انہوں نے کہا: ’مگر ایک بات کا مکمل اعتماد سے پتہ تھا کہ عارف نقوی عمران خان کے نہایت قریبی ہیں، اس حد تک کہ وہ عمران خان کی انتخابی مہم کی فنڈنگ کر رہے تھے۔ تو اگر تحریک انصاف ’وال سٹریٹ جرنل‘ کی خبر پر کارروائی کرتی تو ان کو ڈر تھا کہ وہ خود بے نقاب ہونا شروع ہو جائیں گے کہ آپ ان کے ساتھ کیا کر رہے تھے۔ جب تحریک انصاف حکومت میں آئی تب بھی وہ غیر سرکاری طور پر حکومت کو مشاورت فراہم کر رہے تھے۔‘

عمران خان اور تحریک انصاف کا عارف نقوی سے تعلق

اماراتی اخبار ’دا نیشنل‘ کے مطابق لندن کی عدالت میں پراسیکیوٹر ریچل کپیلا نے عارف نقوی کی ضمانت کے حوالے سے کیس میں جج کے سامنے کہا: ’جب عارف نقوی کو لندن ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تو انہوں نے پولیس کو رابطے کے لیے مختلف فون نمبر دیے جن میں سے ایک نمبر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا تھا۔۔۔۔ عارف نقوی کے پاکستان میں اعلیٰ بااثر شخصیات کے ساتھ تعلقات ہیں جن میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان بھی شامل ہیں۔‘

انہوں مزید کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور عارف نقوی کے ’بہت پرانے مراسم‘ ہیں اور دونوں ’پرانے دوست‘ ہیں۔ عارف نقوی کو اگر ضمانت دی گئی تو گہری تشویش ہے کہ وہ پاکستان بھاگ جائیں گے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق جہاں عارف نقوی پر الزام ہے کہ انہوں نے نواز شریف کے قریبی ساتھی کو 20 ملین پاونڈز کی مبینہ پیشکش کی وہیں عارف نقوی کے موجودہ حکومتی پارٹی تحریک انصاف کے ساتھ مالی تعلقات بھی رہ چکے ہیں۔ اور صرف مالی تعلقات ہی نہیں، سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے مطابق ایک وقت پر وہ حکومت کو بے ضابطہ مشاورت بھی فراہم کر رہے تھے۔ جنوری 2019 میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بطور وزیر خزانہ اسد عمر نے اس بات کا اعتراف کیا تھا۔ عارف نقوی کی یہ ’مشاورت وال سٹریٹ جرنل‘ کی خبر آنے کے بعد بھی جاری رہی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے سابق وزیر خزانہ اسد عمر سے اس حوالے سے رابطہ کیا مگر فی الحال ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

عارف نقوی اس وقت لندن میں موجود ہیں مگر جب وہ پاکستان میں موجود تھے تو وہ وزیر اعظم آفس میں ملاقاتوں میں بھی شریک رہے اور وزیر اعظم سے ملاقاتیں بھی کرتے رہے۔ ’وال سٹریٹ جرنل‘ کی خبر کے بعد کم از کم دو بارعارف نقوی کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی۔

عارف نقوی 7 دسمبر 2018 کو وزیر اعظم آفس میں ہونے والی شنگھائی الیکٹرک اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ملاقات میں بھی موجود تھے۔

9 دسمبر 2018 کو عمران خان کی کراچی میں سمندر پار سرمایہ کاروں کے گروپ سے ملاقات ہوئی جس میں عارف نقوی بھی موجود تھے۔

 

’وال سٹریٹ جرنل‘ کی خبر سے دو دن پہلے وزیراعظم عمران خان کے دو مختلف اجلاس میں موجود تھے۔

 

اس کے علاوہ عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے بھی اپنی کتاب میں دعویٰ کیا تھا کہ عارف نقوی نے 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی مالی معاونت کی تھی۔

انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق عارف نقوی کی تحریک انصاف کو 5.6 کروڑ روپے کی مالی معاونت پر سٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے نیب کو تحقیق کرنے کے لیے کہا تھا، البتہ نیب نے یہ انکوائری 2016 کو ختم کر دی تھی۔ نیب نے انکوائری ختم کرنے کا اعلان اپنی 18 جولائی 2016 کی پریس ریلیز میں کیا تھا۔

حکومت کی جانب سے حالیہ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس پر واجبات کو معاف کرنے کے آرڈیننس سے ابراج کو بھی فائدہ ہونا تھا۔ کے الیکٹرک، جو کہ ابراج کی ملکیت ہے، اس کے ذمہ اس سیس کے تحت اربوں روپے واجب الادا ہیں اور اس آرڈیننس سے تمام کمپنیوں میں سے سب سے زیادہ مالی فائدہ کے الیکٹرک کو ہی ہونا تھا۔ مگر تنقید کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان نے صدارتی آرڈیننس کو واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔

نیو یارک کی عدالت نے ابراج اور ان کے دیگر شراکت داروں پر فرد جرم عائد کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عارف نقوی نے ابراج گروپ کے ذریعے مختلف کاموں کے لیے حاصل سرمایے کو اپنے اکاؤنٹس اور اپنے اہل خانہ کے اکاؤنٹس میں بھی ٹرانسفر کروایا۔ نیو یارک کی عدالت کی طرف سے فرد جرم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عارف نقوی نے ایک اور پاکستانی سیاستدان (جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا) کو ابراج کے فنڈز سے 2013 سے 2016 کے درمیان کئی بار رشوت دی۔

عارف نقوی کی نواز شریف کے قریبی ساتھی کو رشوت کی مبینہ پیشکش

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے کے الیکٹرک کی فروخت کے لیے معاونت حاصل کرنے کے لیے ابراج کے سربراہ عارف نقوی نے نواز شریف کے مشیر نوید ملک کو دو کروڑ ڈالر کی پیشکش کا دعویٰ ’وال سٹریٹ جرنل‘ نے کیا تھا اور اب یہی دعویٰ امریکی عدالتوں کے ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔

نواز شریف کے وکیل اس دعوے کو مسترد کر چکے ہیں مگر اسی حوالے سے نیو یارک کی ایک عدالت نے عارف نقوی اور ان کے دیگر شراکت داروں پر فرد جرم عائد میں لکھا ہے کہ ابراج انٹرپرائز کے اراکین نے عارف نقوی کے حکم پر منتخب پاکستانی نمائندگان کو رشوت دی۔

ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی اور ان کے شراکت داروں کے خلاف امریکہ میں فراڈ کا کیس جاری ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کی عدالت نے عارف نقوی کی غیر موجودگی میں انہیں ایئر عریبیہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنا رکھی ہے۔ عارف نقوی اس وقت برطانیہ میں ڈیڑھ کروڑ پاؤنڈ [تقریباً 291 کروڑ پاکستانی روپے] ادا کر کے ضمانت پر ہیں۔

عارف نقوی، ابراج گروپ اور پاکستان

کے الیکٹرک کی فروخت اور نواز شریف کے معاون کو مبینہ طور پر رشوت کی پیشکش پر مسلم لیگ ن کا کیا موقف ہے؟ اس  بارے میں سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ  نوید ملک کراچی کے تاجر ہیں اور نواز شریف کے قریبی دوست ہیں۔ 

کے الیکٹرک کی فروخت کے حوالے سے ان سے پوچھا گیا کہ کیا کبھی نوید ملک یا نواز شریف نے خود ان سے کے الیکٹرک کی شنگھائی الیکٹرک کی فروخت کے حوالے سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان سے کبھی بھی کسی نے کے الیکٹرک یا کسی اور حوالے سے بھی رابطہ نہیں کیا اور ’نہ ہی نواز شریف نے کبھی مجھے نوید ملک کو کوئی سہولت دینے کے لیے کہا۔‘

محمد زبیر کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ پانچ سالوں میں نواز شریف کے نہایت قریب رہے ہیں اور انہوں نے نواز شریف اور نوید ملک کی قربت کو چند مواقع پر دیکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا نواز شریف جب کراچی آتے تھے تو نوید ملک اکثر ان کا ایئر پورٹ پر استقبال کرتے تھے اور اگر کبھی نواز شریف کے پاس وقت ہوتا تھا تو وہ نوید ملک کے گھر چائے پینے جاتے تھے۔‘

نیب، حکومت اور تحریک انصاف کی خاموشی

انڈپینڈنٹ اردو نے 23 اگست کو وزیر اعظم عمران خان کے میڈیا پر معاون خصوصی افتخار درانی کو ای میل اور واٹس ایپ کے ذریعے سوالنامہ بھجوایا مگر اس کا اس خبر کے فائل ہونے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کی پریس سیکریٹری شہیرا شاہد کو 13 ستمبر کو سوالنامہ بھجوایا گیا اور ان سے فون پر بھی رابطہ ہوا مگر اس دن کے بعد سے وزیر اعظم کی پریس سیکریٹری کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔

اس کے علاوہ تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات احمد جواد کو بھی 11 ستمبر کو سوالات بھیجے گئے جس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ سوالات نیب سے پوچھے جائیں۔ جواباً انہیں بتایا گیا کہ چونکہ الزامات تحریک انصاف جماعت پر ہیں اس لیے اس پر تحریک انصاف کا موقف ضروری ہے مگر اس کے بعد سے ان کی طرف سے بھی کوئی موقف نہیں آیا۔ انہیں 13 ستمبر کو آخری پیغام بھیجا گیا جس میں یہ پوچھا گیا کہ کیا تحریک انصاف اس حوالے سے اپنا موقف دینے میں دلچسپی رکھتی ہے یا نہیں۔ احمد جواد نے واٹس ایپ میسج پڑھنے کے بعد کوئی جواب نہیں دیا۔

اسی طرح نیب سے بھی متعدد بار موقف کے لیے رابطہ کیا گیا مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر سے بھی رابطہ کیا مگر ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے عارف نقوی کو ان کے وکیل ہیوگو کیتھ اور بن روز کے ذریعے سوالنامہ بھجوایا مگر ان کی طرف سے بھی کوئی رد عمل نہیں آیا۔

ابراج گروپ کیا ہے؟

ابراج گروپ مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا فنڈ گروپ مانا جاتا تھا اور پاکستان میں کے الیکٹرک ابراج گروپ کی ملکیت تھی جبکہ اسلام آباد میں ایک طبی لیبارٹری اسلام آباد ڈائیگناسٹک سینٹر کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق ابراج نے لیبارٹری میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

اس کے علاوہ ابراج گروپ کو مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کی فاونڈیشن نے فنڈز دے رکھے ہیں۔ ابراج گروپ 2018 میں فنڈز کی کمی وجہ سے دیوالیہ ہو گئی تھی اور اسی لیے ابراج کے الیکٹرک ایک چینی کمپنی شنگھائی الیکٹرک کو بیچنا چاہتی تھی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست