جسٹن ٹروڈو کو ٹرمپ نے گرایا، اگلا کون ہو گا؟

جب جسٹن ٹروڈو نے چھٹیوں کے بعد کام کے پہلے دن وزیراعظم اور لبرل پارٹی کے رہنما کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو یہ کہا جا رہا تھا کہ کینیڈا  بحران کا شکار ہو گیا لیکن یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو چھ جنوری 2025 کو کینیڈا کے شہر اوٹاوا میں رائیڈو کاٹیج میں ایک نیوز کانفرنس کے موقعے پر (اے ایف پی)

جب جسٹن ٹروڈو نے چھٹیوں کے بعد کام کے پہلے دن وزیراعظم اور لبرل پارٹی کے رہنما کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو یہ کہا جا رہا تھا کہ کینیڈا  بحران کا شکار ہو گیا لیکن یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔

کینیڈین سیاست پہلے ہی بحران کا شکار تھی۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ٹروڈو کا استعفیٰ اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ تھا، جو گذشتہ ماہ ان کی نائب اور وزیر خزانہ کرسٹیا فری لینڈ کے اچانک استعفے اور پارلیمنٹ میں اقلیتی ٹروڈو حکومت کو سہارا دینے والی آخری پارٹی کی حمایت کھونے کے بعد پیدا ہوا۔

فری لینڈ کے استعفے نے حکومت کے اندر سرکاری اخراجات پر شدید پالیسی اختلافات کو نمایاں کر دیا۔ اس دوران نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما جگمیت سنگھ کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی دھمکی ایک ایسی حکومت کو گرا سکتی تھی جو پہلے ہی مشکل سے چل رہی تھی۔

ٹروڈو نے اپنے استعفے کی تقریر میں کہا کہ انہوں نے فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے خاندان سے مشورہ کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے لیے یہ فیصلہ پہلے ہی کر لیا گیا تھا۔

 لبرل پارٹی اب نئے رہنما کی تلاش میں ہے اور یہ امکان موجود ہے کہ آئندہ عام انتخابات، جو اگلے موسم خزاں تک ہونے ہیں، قبل از وقت کرا لیے جائیں۔

اب کینیڈین سیاست تعطل کا شکار ہو چکی جو شاید مارچ کے آخر تک جاری رہے۔ یہ تعطل کینیڈا کے لیے بدترین وقت پر پیدا ہوا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں آمد سے صرف دو ہفتے قبل۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید  نیا کنیڈین رہنما امریکی صدر کے ساتھ بہتر طریقے سے معاملات سنبھال سکے، خاص طور پر ایسے صدر کے ساتھ جس نے ٹروڈو کو فلوریڈا میں واقع عارضی ’وائٹ ہاؤس‘ پر ملاقات کے لیے جلدی پہنچنے پر مجبور کیا۔ ملاقات کا مقصد یہ تھا کہ تجارتی ٹیکسوں کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔ لیکن اس کے بدلے ٹروڈو کو ’گریٹ سٹیٹ آف کینیڈا کے گورنر‘ کا حقارت آمیز خطاب ملا۔ ٹرمپ نے کینیڈا کو امریکہ کی ’51ویں ریاست‘ قرار دے دیا۔

ٹروڈو نے اپنے پہلے دور حکومت میں ٹرمپ کے ساتھ  تجارتی معاہدے پر بات چیت کی لیکن لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات بدل چکے ہیں۔

امریکہ کے نئے صدر کے ساتھ معاملات پیشگی طے کرنے کی کوشش میں، کینیڈا کے وزیرِاعظم منفرد نہیں تھے۔ حالیہ ہفتوں میں ایک نمایاں بات یہ رہی ہے کہ کتنے قومی رہنماؤں نے ٹرمپ سے ذاتی طور پر ملاقات کر کے اپنا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی اور کتنے ممالک نے اپنی پالیسیوں کو ان کی توقعات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی یا یوں کہا جائے کہ ان کی پالیسیاں پہلے ہی تبدیل کر دی گئیں۔

فرانس کی سیاسی صورت حال، جہاں گذشتپ ماہ اس سال کے چوتھے وزیرِاعظم کا اعلان کیا گیا اور جرمنی، جہاں قبل از وقت انتخابات کا انتظار ہے، دونوں پر امریکی صدارتی انتخاب کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ دریں اثنا پیٹر مینڈلسن، جو برطانیہ کے نئے سفیر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں اور اس کردار کو ’بہت بڑا اعزاز‘ کہتے ہیں، کا کام دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

نو منتخب امریکی صدر پہلے ہی یورپی یونین، نیٹو اتحاد، اور یوکرین میں ہلچل مچا چکے ہیں۔ روس کے ساتھ جنگ ختم کرانے کے اپنے وعدے کی وجہ سے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان مشکل جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ بھی شاید ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل ہو۔

کینیڈا میں وہ اختلاف جو ٹروڈو کے استعفے کا سبب بنایا، بالواسطہ طور پر ٹرمپ سے جڑا ہوا تھا۔ فری لینڈ بطور وزیرِ خزانہ ٹروڈو کے سرکاری اخراجات کے وعدوں کو ’ہتھکنڈے‘ قرار دے کر مستعفی ہو گئیں اور دلیل دی کہ اس وقت سخت مالی نظم و ضبط کی ضرورت ہے تاکہ ان 25 فیصد محصولات سے بچا جا سکے جن کی ٹرمپ نے دھمکی دی اس صورت میں کہ اگر کینیڈا نے امریکی خواہشات کے مطابق مشترکہ سرحد کی حفاظت نہ کی۔

یہ اختلاف فری لینڈ کو ٹروڈو کے بعد پارٹی کی قیادت کے لیے سب سے مضبوط امیدوار بنا سکتا ہے۔ ایک اور ممکنہ امیدوار، جو یورپ میں زیادہ پہچانا جاتا ہے، مارک کارنی ہیں۔ انہوں نے ٹروڈو کے استعفے کے اعلان کے 24 گھنٹے کے اندر اپنی سیاسی دلچسپی ظاہر کی۔

 2012 میں جارج اوسبورن نے انہیں کینیڈا کے مرکزی بینک کے سربراہ کے عہدے سے ہٹا کر بینک آف انگلینڈ کا گورنر مقرر کیا۔ اس کے بعد وہ ماحولیاتی مسائل پر عالمی سطح کے چیمپیئن اور کینیڈا میں مشہور شخصیت بن گئے۔

نیا پارٹی رہنما جتنا بھی مقبول ہو، ایسا لگتا ہے کہ لبرل پارٹی اگلے انتخابات میں کنزرویٹوز سے شکست کھانے سے نہیں بچ سکے گی  اور اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ رائے عامہ کے جائزے میں 15 پوائنٹس کا فرق اتنا بڑا ہے کہ اسے ختم کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ممکنہ امیدوار انہیں الزامات کا سامنا کریں گے جنہوں نے ٹروڈو کو گرایا  یعنی یہ کہ وہ عام ووٹرز کے سب سے اہم مسائل سے بے خبر ہیں۔

جو چیز یہاں واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مسائل نہ صرف کینیڈا بلکہ امریکہ اور یورپ کے ووٹرز کے لیے بھی بہت مانوس ہیں۔ ان مسائل میں پناہ گزینوں کی حالیہ بڑی تعداد، مہنگائی میں اضافہ، خاص طور پر توانائی اور کھانے پینے کی اشیا کی زیادہ قیمتیں، ماحولیاتی پالیسیاں جو مصارف زندگی کو مزید بڑھا رہی ہیں، اور رہائش کے ناقابل برداشت مسائل شامل ہیں۔

یہی شکایات گذشتہ نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کی صدارت تک لے گئیں۔ جرمنی میں اولاف شولز کی اعتدال پسند لبرل حکومت کو ممکنہ شکست کے دہانے پر لے آئی ہیں، اور برطانیہ میں جولائی میں عدم اطمینان کے باعث لیبر پارٹی کو اقتدار میں لائیں۔ یہ مسائل اب نئی حکومت کی مقبولیت کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مسائل وہ ہوں جو ہر معاشرے کو اس کے ترقی کے مخصوص مرحلے پر درپیش آتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب سرحدوں کے پار لوگوں کی نقل و حرکت کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن ٹروڈو کے خاص قسم کے لبرل ازم نے ان مسائل کو اور بڑھا دیا۔ کینیڈا کی غیر معمولی طور پر فیاضانہ امیگریشن پالیسیوں سے لے کر ماحولیاتی پالیسیوں کی بنیاد رکھنے والے کاربن ٹیکس تک، غربت کم کرنے کے لیے بنائے گئے فلاحی منصوبے، اور مقامی لوگوں کی تاریخ کو تسلیم کرنے اور ان کی حالت بہتر بنانے کی کوششیں، یہ سب باتیں ان کی پالیسیوں کا حصہ تھیں۔ ان میں معالج کی مدد سے زندگی ختم کرنے کے حق کے دنیا کے سب سے زیادہ لبرل  قانون اور اور چرس کو قانونی حیثیت دینا بھی شامل کر لیں۔

اقتدار کے ابتدائی برسوں میں ان کی مثالی شہرت اور 60 فیصد سے زیادہ عوامی حمایت کے برعکس، ٹروڈو کی مقبولیت 30 فیصد سے بھی کم ہو گئی۔ ان کی پالیسیاں وقت کے ساتھ زیادہ متنازع ہو گئیں اور ان کی حمایت زیادہ تر کاسموپولیٹن اشرافیہ کے چھوٹے سے طبقے تک محدود ہو کر رہ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پالیسیوں کے ورثے کے، چاہے پارٹی کی قیادت کوئی بھی کرے، اگلے انتخابات میں لبرل پارٹی کی شکست کا سبب بننے کا امکان ہے۔

جسٹن ٹروڈو کی پہلی حیران کن انتخابی فتح اور موجودہ وقت کے درمیان مزاج کا فرق وہی وجہ ہے جس کی بنا پر ان کے شاندار عروج و زوال بلکہ ان کے ’ذاتی المیے‘ کے بارے میں کافی باتیں ہو رہی ہیں۔ ان کا زوال اس لیے اور بھی نمایاں ہے کیوں کہ وہ ان کے والد، پیئر ٹروڈو، کے کریئر کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے، جنہوں نے بھی مقبولیت میں کمی کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا (اگرچہ پیئر نے کُل 15 سال حکومت کی جب کہ جسٹن کے اقتدار کا دورانیہ نو سال رہا)۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ کینیڈین طرز کا یا شاید ٹروڈو طرز کا لبرل ازم کم از کم کچھ عرصے کے لیے منظر سے غائب ہونے کے خطرے سے دوچار ہے لیکن اس کے باوجود نوجوان ٹروڈو نے ایسے کارنامے انجام دیے ہیں جو وقت کی کسوٹی پر پورے اتریں گے۔ خاص طور پر کینیڈا کے لیے ان کی کامیابیاں اس ملک کو اپنے جنوبی ہمسایے (امریکہ) سے زیادہ منفرد بنا چکی ہیں۔ چاہے وہ سماجی پالیسی ہو یا خارجہ پالیسی۔

یہ آپ کی رائے پر منحصر ہے کہ آپ اسے اچھا سمجھتے ہیں یا نہیں  اور کینیڈا اور امریکہ دونوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسے پسند نہیں کرتے، لیکن ٹروڈو نے بنیادی طور پر ایسی پالیسی نافذ کی جس نے معاشرتی عدم مساوات کو کم کیا اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں نمایاں کمی لائی۔

ٹروڈو کو اس بات کا بھی کریڈٹ دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے دو لسانی اور دو ثقافتی کینیڈا کی حقیقت کو آگے بڑھایا ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ اپنے آپ سے مطمئن ہے۔ کیوبیک کی علیحدگی اب وہ مسئلہ نہیں رہی جو پہلے تھا۔ ماضی کی غلطیوں کو، خاص طور پر مقامی آبادی کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو، اب اس طرح تسلیم کیا گیا جیسا پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ ماحولیاتی شعور کینیڈا کی قومی شناخت میں سرایت کر چکا ہے۔

ٹروڈو شاید بدنامی کے ساتھ عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ وہ وقت کی روح سے ہم آہنگ نہیں لیکن ان کے نو سالو نے ایک نقش چھوڑا۔ اور ان کی کچھ کامیابیاں اتنی مضبوطی سے کینیڈین شناخت میں شامل ہو چکی ہیں اور مسلمہ ہیں کہ انہیں واپس نہیں کیا جائے گا۔ چاہے مغربی دنیا، کم از کم مختصر عرصے کے لیے ہی سہی، خود کو ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں کتنا ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر