خضدار کا ہندو محلہ، جہاں سہولیات ناکافی مگر مکانات ’کراچی سے بھی مہنگے‘

خضدار میں واقعہ ہندو محلہ ایک کلو میٹر کے دائرہ سے بھی چھوٹا ہے اور مقامیوں کے مطابق یہاں کے پلاٹس کراچی کے بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس سے بھی زیادہ مہنگے ہیں۔

کویتا کماری خضدار میں واقع پانچ ہزار افراد پر مشتمل ہندو محلے میں رہائش پذیر ہیں، جہاں صحت، صفائی، تعلیم، کھیل کے میدان سمیت دیگر معاملات میں کافی مشکلات ہیں۔

کویتا کماری اپنے گھر کی واحد خود کفیل ہیں اور دوسرے گھروں میں محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا ہے۔ چھوٹے سے  ایک کمرے پر مشتمل مکان کا کرایہ 10 ہزار روپے ہے۔

’جب بارش ہوتی ہے تو ہمیں مجبوراً کسی اور کے گھر میں پناہ لینا پڑتی ہے کیونکہ پورے محلے کا پانی ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتا ہے جس سے ہمارا گھر پانی میں ڈوب جاتا ہے۔‘

بلوچستان کے مختلف علاقوں کوئٹہ، قلات، خضدار، جھل مگسی، لسبیلہ اور دیگر علاقوں میں صدیوں سے ہندو برادری آباد ہے۔

پاکستان کی آزادی سے قبل ہندو برادری ان اضلاع کے نہ صرف شہروں میں بلکہ  دیہی علاقوں میں بھی رہ کر تجارت کرتے تھے۔

آزادی کے بعد ہندو برادری نے سکیورٹی اور دیگر وجوہات کی وجہ سے دیہی علاقوں کو چھوڑ کر شہروں میں پناہ لی ہے۔

خضدار شہر میں اکثریت اور بڑے کاروباری مراکز ہندوؤں کے ہیں، جہاں وہ اپنے محلے کے قریب کی دکانوں میں کاروبار کرتے ہیں۔

اس کمیونٹی کے افراد خضدار شہر کی مرکزی مارکیٹ، کراچی روڈ کے قریب رہائش کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ ایک تو انہیں گھر آںے جانے میں دشواری نہیں ہوتی ہے، دوسرا سکیورٹی اور اپنی عبادت گاہوں کی وجہ سے وہ اب اس محلے سے بھی نکلنا نہیں چاہتے ہیں۔

خضدار میں واقعہ ہندو محلہ ایک کلو میٹر کے دائرہ سے بھی چھوٹا ہے اور مقامیوں کے مطابق یہاں کے پلاٹس کراچی کے بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس سے بھی زیادہ مہنگے ہیں۔

خضدار ہندو محلے کے رہائشی مکیش کمار بھی رہائش کے حوالے سے متاثرین میں شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہاں رہائشی مکانوں کا کرایہ بہت زیادہ ہے، چھوٹے چھوٹے فلیٹس میں کئی افراد پر مشتمل خاندان رہائش کرنے پر مجبور ہیں۔ میرے گھر کا کرایہ حد سے بہت زیادہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خضدار ہندو کمیونٹی میں ہندو پنچائت کے صدر بابو کنیا لعل کہتے ہیں ’ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا ہے۔ خضدار میں ہندو آبادی کے لیے مکانات کم ہیں، یہاں پانچ پانچ منزلوں میں لفٹ کی سہولت ناممکن ہے۔

’قیمتیں کراچی کے ڈیفس سے زیادہ ہیں اور چھوٹے 12 سو سکوائر فٹ کے فلیٹ ہوتے ہیں۔ اتنا مہنگا ہونے کے باوجود یہاں کوئی سہولت دستیاب نہیں ہیں اور محلے میں سکول بند ہے اور پانی، بجلی کے کافی مشکلات ہیں۔

’مذہبی اور دنیاوی رسومات کے لیے کوئی جگہ دستیاب نہیں ہیں۔ تنگ گلیوں سے بیک وقت صرف ایک بندہ گزر سکتا ہے۔ محلے کے قریب پارک اور کھیل کی میدان کی عدم دستیابی سے شام کے وقت یہاں پیدل چلنا محال ہو جاتا ہے۔‘

خضدار کی ہندو کمیونٹی کے افراد کے مطابق وہ کسی دوسرے علاقے میں جانا نہیں چاہتے ہیں۔

یہاں خضدار میں خشک موسم کی وجہ سے تین منزلوں سے زیادہ بڑی عمارت بنا نہیں سکتے ہیں کیوںکہ یہاں اکثر عمارتوں میں خشکی کے نتیجے میں دراڑیں پڑتی ہیں، دوسرا یہاں زلزلہ کا خطرہ بھی کافی رہتا ہے۔

مقامی تعمیراتی ٹھیکہ دار عبدالحمید کا یہ کہنا تھا کہ لیکن ان تمام وجوہات کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو ہندو محلے سے مختصر فاصلے پر زمینوں کی قیمت زیادہ نہیں ہے۔ یہاں ایک پلاٹ کی قیمت ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کے درمیان ہے۔‘ 

خضدار میں صدیوں سے آباد ہندو برادری نے کئی بار مقامی انتظامیہ اور حکام بالا سے شہر سے قریب الگ سوسائٹی کا مطالبہ تو کیا ہے لیکن اس سلسلے میں ان کی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ڈپٹی کمشنر خضدار سے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ’ہندو کمیونٹی کمرشل علاقے میں واقع ہے یہ ایک گنجان آبادی والا علاقہ ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں زمینوں کی قیمیتیں زیادہ ہیں۔‘

کمشنر قلات ڈویژن محمد نعیم بازئی نے کہا کہ ’یقیناً آبادی بڑھنے کے ساتھ رہائشی مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اقلیتی برادری کے رہائشی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ کمیونٹی سے قریب میں واقع سرکار اراضیات پر ان حق ہے۔‘

ایڈوکیٹ ہائی کورٹ استر مہک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صوبے میں کئی سالوں کمیونٹی کا بجٹ کرپشن کا شکار ہو رہی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان