پاکستان میں تعلیمی تفریق: ’جتنا بحران سکولوں سے باہر ہے اتنا ہی سکولوں کے اندر بھی‘

پاکستان میں دو کروڑ 60 لاکھ زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں، جبکہ ملک میں کئی نظام تعلیم موجود ہیں۔

انیسہ ہارون کراچی کے نواحی عبداللہ گوٹھ میں واقعی گھر میں پھٹا ہوا سکول بیگ پھینک کر جلدی سے دوپہر کا کھانا کھاتی ہیں اور پھر اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں سبزیاں توڑنے چلی جاتی ہیں۔

11  سالہ انیسہ کا سکول میں داخلہ سات سال کی عمر میں ان کے اس دیہی گاؤں کے اساتذہ اور والدین کے درمیان بات چیت کا نتیجہ تھا۔

سکول کی ہیڈ ٹیچر رخسار آمنہ نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کو بتایا: ’شروع میں کئی والدین اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے حق میں نہیں تھے۔ کچھ بچے کھیتوں میں کام کر رہے تھے اور ان کی کمائی کو تعلیم سے زیادہ قیمتی سمجھا جاتا تھا۔‘

پاکستان ایک سنگین تعلیمی بحران کا شکار ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں دو کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں، جن میں سے اکثریت دیہی علاقوں میں ہے۔

یہ شرح دنیا میں کافی زیادہ ہے۔ آج پاکستان ایک دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے جس کا مقصد مسلم ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینا ہے۔

کانفرنس میں نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی بھی شرکت کر رہی ہیں۔ پاکستان میں غربت بچوں کو سکول سے باہر رکھنے کا سب سے بڑا عنصر ہے۔ لیکن اس مسئلے کو ناقص بنیادی ڈھانچے، غیر تربیت یافتہ اساتذہ، معاشرتی رکاوٹوں اور موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی قدرتی آفات کے اثرات نے مزید بڑھا دیا ہے۔

عبداللہ گوٹھ میں ایک غیر سرکاری تنظیم روشن پاکستان فاؤنڈیشن کا سکول 2500 سے زائد افراد کی آبادی کے لیے کئی دہائیوں میں پہلا سکول ہے۔

36  سالہ تعلیم کے حق میں سرگرم کارکن حمیرا بچل نے، جو اس سکول کے ساتھ کام کر رہی ہیں، کہا: ’یہاں کئی نسلوں سے کوئی سکول نہیں تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ والدین، کمیونٹی اور بچوں نے سکول کی اہمیت کو سمجھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’سکول کا قیام صرف پہلا قدم تھا۔ والدین نے صرف اس صورت میں اپنے بچوں کو سکول بھیجا جب ان کو کھانے کا راشن دیا گیا تاکہ بچوں کی غیر حاضری سے جو گھریلو آمدنی میں کمی ہو رہی تھی اس کا ازالہ کیا جا سکے۔‘

تعلیمی ایمرجنسی

عبداللہ گوٹھ میں زیادہ تر بچے صبح کے وقت سکول جاتے ہیں تاکہ وہ دوپہر میں کام کر سکیں۔

انیسہ کے والد ہارون نے بازار میں فروخت کرنے کے لیے بھنڈی توڑتی اپنی بھانجی اور بیٹی کو دیکھتے ہوئے کہا: ’ان کی باقاعدہ مدد ہمارے لیے ضروری ہے۔ ہمارے گاؤں کے لوگ بکریاں رکھتے ہیں اور جب ہم کام پر ہوتے ہیں تو بچے ان کو چرا کر مدد کرتے ہیں۔ چراگاہ سے واپس آ کر وہ مزدوری میں بھی ہماری مدد کرتے ہیں‘۔

پاکستان میں تعلیم پر موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی اثر بڑھ رہا ہے۔

ملک میں سکولوں کی بندش کی خبریں اکثر سنائی دیتی ہیں جن کی وجہ انتہائی دھند، ہیٹ ویو اور سیلاب ہوتے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں ہیٹنگ یا پنکھے کی سہولت بھی کم ہی ہوتی ہے۔

بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں تعلیم میں نمایاں مشکلات آ رہی ہیں جبکہ اسلام آباد میں سیاسی ہلچل کے باعث کلاسیں اکثر متاثر ہوتی ہیں۔

اگرچہ پانچ سے 16 سال کے بچوں کی سکول سے باہر ہونے کی شرح 2016 میں 44 فیصد سے کم ہو کر 2023 میں 36 فیصد ہو گئی ہے، لیکن مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق آبادی میں اضافے کی وجہ سے سکول سے باہر بچوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔

ملک بھر میں لڑکیوں کے سکول جانے امکانات پہلے ہی کم ہیں۔ حکومت کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے والی پاک الائنس فار میتھ اینڈ سائنس نے بتایا کہ بلوچستان میں لڑکیوں کی نصف تعداد سکول نہیں جا پا رہی۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے گذشتہ سال ’تعلیمی ایمرجنسی‘ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اگلے پانچ سالوں میں تعلیمی بجٹ کو جی ڈی پی کے 1.7 فیصد سے بڑھا کر چار فیصد تک لے آئیں گے۔

تعلیمی تفریق

سرکاری سکول مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں، لیکن محدود وسائل اور زیادہ تعداد کی وجہ سے یہ اکثر نجی سکولوں کے لیے ایک بڑی مارکیٹ پیدا کرتے ہیں جن کی فیس چند ڈالر فی مہینہ سے شروع ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک متوازی نظام میں ہزاروں مدرسے غریب ترین خاندانوں کے بچوں کو اسلامی تعلیم دیتے ہیں، ساتھ ہی مفت کھانا اور رہائش فراہم کرتے ہیں، لیکن یہ اکثر بچوں کو جدید دنیا کے لیے تیار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

بوسٹن یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر عادل نجم، جنہوں نے پاکستان کے تعلیمی نظام پر تحقیق کی ہے، نے کہا کہ ’ایک طرح سے ہمیں تعلیمی تفریق کا سامنا ہے۔

’ہمارے ہاں کم از کم 10 مختلف نظام ہیں اور آپ جس معیار کی تعلیم خرید سکتے ہیں خریدیں، بالکل خراب سے لے کر دنیا کی بہترین تعلیم تک۔

’نجی غیر منافع بخش سکول لوگوں کے لیے ایک نمونہ ہو سکتے ہیں لیکن یہ پوری تعلیم کے نظام کو بدلنے کے لیے کافی نہیں۔‘

حتیٰ کہ کم عمر طالبہ انیسہ، جنہوں نے صحت کے ماہرین کے سکول کے دورے کے بعد ڈاکٹر بننے کا ارادہ کر لیا ہے، بھی شہر کے بچوں کے ساتھ موجود فرق کو بخوبی سمجھتی ہے۔ ’وہ ہماری طرح کھیتوں میں کام نہیں کرتے۔‘

عبداللہ گوٹھ کے چھوٹے سے بازار میں درجنوں بچے نظر آتے ہیں جو سڑک کنارے ہوٹلوں میں ٹرک ڈرائیوروں کو چائے پیش کرتے ہیں یا مارکیٹ سٹالز میں پھل فروخت کرتے ہیں۔

10 سالہ کامران عمران اپنے والد کی مدد کرتا ہے اور اپنے تین چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش کے لیے دوپہر میں موٹر سائیکل ورک شاپ پر کام کرتا ہے۔ کامران روزانہ 250 روپے (0.90 ڈالر) کماتا ہے۔

موٹر سائیکل ورک شاپ کے 24 سالہ مالک محمد حنیف تعلیم کے حق میں نہیں اور اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجتے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: اگر 10 سے 12 سال بعد بھی ہمیں بنیادی ضروریات کے لیے جدوجہد کرنی ہے، تو وقت کیوں ضائع کریں اور کوئی ذرائع نہیں ملتے تو پڑھائی کا کیا فائدہ؟‘

نجم نے کہا کہ کم معیار والی تعلیم سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔

والدین یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کے بچے بہتر سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں سے مقابلہ نہیں کر سکتے، اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے انہیں ہنر سکھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

نجم نے کہا: ’جتنا بڑا بحران سکول سے باہر بچوں کا ہے اتنا ہی بڑا بحران سکولوں میں تعلیم کے معیار کا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس