پاکستان نے ہفتے کو ویسٹ انڈیز کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے لیے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان کر دیا ہے۔
سلیکٹرز نے ویسٹ انڈیز کے خلاف آئندہ ہفتے شروع ہونے والی سیریز کے لیے اوپنر امام الحق کو واپس بلا لیا۔ 29 سالہ امام الحق نے پاکستان کے لیے 24 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں، انہیں گذشتہ سال آسٹریلیا میں 3-0 کی شکست کے بعد خراب فارم کی وجہ سے ڈراپ کر دیا گیا تھا۔
سلیکٹرز نے ڈومیسٹک میچز میں اچھی کارکردگی کی بنیاد پر تین نئے کھلاڑیوں کو بھی سکواڈ میں شامل کیا، جن میں اوپنر محمد حریرہ، وکٹ کیپر روحیل نذیر اور فاسٹ بولر کاشف علی شامل ہیں۔
پاکستان 19 سال بعد پہلی بار ویسٹ انڈیز کی میزبانی کرے گا۔ دونوں ٹیسٹ میچز ملتان میں کھیلے جائیں گے۔ پہلا میچ 17 جنوری اور دوسرا 25 جنوری سے شروع ہوگا۔
شان مسعود کو کپتان برقرار رکھا گیا ہے حالاں کہ پاکستان کو گذشتہ ہفتے جنوبی افریقہ میں دونوں ٹیسٹ میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سکواڈ میں شان مسعود (کپتان)، سعود شکیل (نائب کپتان)، ابرار احمد، بابر اعظم، امام الحق، کامران غلام، کاشف علی، خرم شہزاد، محمد علی، محمد حریرہ، محمد رضوان، نعمان علی، روحیل نذیر، ساجد خان اور سلمان علی آغا شامل ہیں۔
پاکستان ویسٹ انڈیز کرکٹ کے کچھ یادگار لمحات
ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے دورے کے حوالے سے پاکستانی کرکٹ فینز میں کسی قسم کا جوش و خروش نظر نہیں آتا، کیونکہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کافی عرصے سے ایک معمولی ٹیم میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس کا معیار ایک دوسرے درجے کی ٹیم کا ہو چکا ہے۔
ماضی میں ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے متعدد ایسے مقابلے ہوئے، جنہوں نے کرکٹ کے متوالوں کی دلچسپی آخری گیند تک باقی رکھی۔
حنیف محمد کے 337 رنز
کرکٹ کی تاریخ کی طویل ترین اننگز، 337 رنز، ایک ایسا کارنامہ ہے جو آج تک قائم ہے اور شاید کبھی نہ ٹوٹ سکے۔ 970 منٹ تک بیٹنگ کریز پر موجود رہنا ایک ناقابل تسخیر ریکارڈ ہے۔
17 جنوری 1958 کو برج ٹاؤن میں اس اننگز نے ویسٹ انڈینز کو حیران کر دیا تھا۔ ایک تماشائی جب میچ دیکھتے ہوئے درخت سے گر گیا اور بے ہوش ہو گیا، تو ہوش میں آنے کے بعد پہلا سوال تھا، ’کیا حنیف آؤٹ ہو گیا؟‘
جب کلارک نے اینٹ دے ماری
80 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کی بولنگ ’آندھی‘ کے نام سے مشہور تھی۔ 1981 میں پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی ویسٹ انڈیز کی ٹیم تنازعات سے دوچار رہی۔
ملتان ٹیسٹ کے دوران تماشائیوں کی جانب سے جب کچھ پتھر کلارک کی طرف پھینکے گئے تو ایک پتھر سے وہ زخمی ہونے سے بچے۔ کلارک نے اس پر شدید ردِعمل دیا اور ایک اینٹ اٹھا کر تماشائیوں کی طرف پھینکی، جس سے ایک نوجوان زخمی ہو گیا۔
اس پر ہنگامہ ہو گیا اور کھیل ایک گھنٹہ روک دیا گیا۔ ویسٹ انڈیز کے ایلون کالی چرن نے جب تماشائیوں سے معافی مانگی، تب کہیں جا کر کھیل شروع ہوا۔ کلارک اور ویسٹ انڈیز کے مینیجر نے بعد میں ہسپتال جا کر زخمی نوجوان کی عیادت کی اور معافی مانگی۔
ورلڈ کپ 1975 کا یادگار میچ
ورلڈ کپ 1975 میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا برمنگھم میچ کرکٹ کی تاریخ کے چند یادگار میچوں میں سے ایک ہے۔ اس میچ پر دونوں ٹیموں کے سیمی فائنل میں پہنچنے کا فیصلہ ہونا تھا۔
پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 266 رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز جواب میں جب 203 رنز تک پہنچا تو اس کے 9 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ ایسے میں ڈیرک مرے نے اینڈی رابرٹس کے ساتھ آخری وکٹ کے لیے 64 رنز کی شراکت کر کے پاکستان کے ہاتھ سے جیتا ہوا میچ چھین لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آخری اوور میں فیصلہ ہونے والے اس میچ کو اس ورلڈ کپ کا سب سے دلچسپ میچ قرار دیا گیا۔
2017 ٹیسٹ میچ آخری اوور میں فتح
پاکستان جب 2017 میں ویسٹ انڈیز کے دورے پر پہنچا تو یہ پاکستانی کپتان مصباح الحق اور لیجنڈ یونس خان کی آخری سیریز تھی۔ پاکستان تیسرے ٹیسٹ میچ میں ڈومینیکا میں جیت کے ساتھ سیریز جیت لینا چاہتا تھا۔
ٹیسٹ میچ کے آخری دن ویسٹ انڈیز کو 304 رنز جیت کے لیے درکار تھے، جو بظاہر ناممکن تھے۔ ایسے میں وہ ڈرا کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پاکستانی بولرز نے آخری دن چائے کے وقفے کے بعد ویسٹ انڈیز کے 9 کھلاڑی آؤٹ کر دیے تھے، لیکن اس موقعے پر روسٹن چیس پاکستان کی جیت کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔
انہوں نے شین گیبریل کے ساتھ میچ کے اختتام تک بیٹنگ کر کے میچ کو تقریباً ڈرا کر لیا تھا۔ پاکستانی کپتان مصباح الحق تیزی سے بولنگ تبدیل کرنے کے باوجود آخری وکٹ لینے میں ناکام تھے۔ میچ کا آخری اوور یاسر شاہ نے کیا۔ ان کے اوور کی پانچ گیندیں گیبریل نے روک لیں، لیکن چھٹی گیند پر ایک اونچا شاٹ لگانے کے چکر میں وہ بولڈ ہو گئے۔
اس وکٹ نے مصباح الحق کو وہ اعزاز بخشا جو عمران خان، مشتاق محمد اور نہ جاوید میانداد لے سکے، یعنی ویسٹ انڈیز کو ویسٹ انڈیز میں شکست دے کر سیریز جیتنا۔ اس میچ کو تاریخِ کرکٹ میں یادگار تسلیم کیا جاتا ہے۔
آسٹریلیا ویسٹ انڈیز ورلڈ کپ 1992
اگرچہ اس میچ کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن اس میچ کو پورا پاکستان دیکھ رہا تھا اور آسٹریلیا کی جیت کی دعائیں کر رہا تھا۔
پاکستانی سابق وکٹ کیپر معین خان کہتے ہیں کہ ہم لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس میچ کو دیکھ رہے تھے، کیونکہ اس ورلڈ کپ میں اس میچ پر سیمی فائنلسٹ کا انحصار تھا۔ ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے پوائنٹس برابر تھے، جبکہ رن ریٹ بہتر تھا۔
آسٹریلیا کی کارکردگی بہت خراب تھی اور وہ زیادہ تر میچ ہار چکی تھی۔ ایک نظر میں تو ویسٹ انڈیز کے لیے آسان ترین میچ تھا، لیکن اس دن آسٹریلیا پاکستان کے لیے کھیلا اور غیر متوقع طور پر ویسٹ انڈیز کو شکست دے دی۔ اس میچ نے پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچا دیا اور آخر میں پاکستان چیمپیئن بن گیا۔
عبدالقادر کی فتح گر بیٹنگ اور بولنگ
عبدالقادر کی ویسٹ انڈیز کے خلاف کارکردگی بہت زبردست رہی تھی۔ 1986 میں فیصل آباد ٹیسٹ میچ میں ان کی دوسری اننگز میں صرف 16 رنز دے کر 6 وکٹوں کی بولنگ نے ویسٹ انڈیز جیسی مضبوط بیٹنگ لائن کو صرف 53 رنز پر آؤٹ کر دیا تھا۔ ان کی بیٹنگ بھی کبھی کبھی بہت کام آتی تھی۔
1987 کے ورلڈ کپ میں لاہور میں پاکستان کو ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری اوور میں 13 رنز درکار تھے۔ آخری وکٹ تھی اور جیت بظاہر ناممکن لگ رہی تھی۔ کورٹنی والش آخری اوور کر رہے تھے۔ عبدالقادر نے آخری اوور میں چھکا لگا کر پاکستان کو فتح دلا دی۔
پاکستان اور ویسٹ انڈیز کرکٹ کے اور بھی بہت سے یادگار واقعات ہیں، لیکن طوالت کے باعث یہاں درج نہیں کیے جا سکتے۔ ماضی میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ہمیشہ مقابلے کی کرکٹ کھیلی ہے، اسی لیے سر ویوین رچرڈز پاکستان کو سخت ترین حریف قرار دیتے ہیں۔