آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان بدھ سے ایڈیلیڈ میں شروع ہونے والی دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں میزبان ٹیم فیورٹ کے طور پر کھیلے گی لیکن مہمان ٹیم کا اصرار ہے کہ وہ موجودہ عالمی ٹیسٹ چیمپیئن کو حیران کرنے کے لیے تیار ہے۔
آسٹریلوی ٹیم کے لیے سب سے بڑا چیلنج تجربہ کار اوپنر ڈیوڈ وارنر کے متبادل کا فیصلہ کرنا ہے جو رواں ماہ کے اوائل میں سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستان کے خلاف فتح کے بعد ریٹائر ہوئے تھے۔
انہوں نے سٹیو سمتھ کو اوپر لانے اور عظیم آل راؤنڈر کیمرون گرین کو چوتھے نمبر پر بیٹنگ کے لیے واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں وہ ویسٹرن آسٹریلیا کی ریاستی ٹیم کی طرف سے جگہ بنائیں گے۔
باقی ٹیم میں اس سے زیادہ کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جس نے حال ہی میں پاکستان کے خلاف مکمل ہونے والی سیریز میں اسے 3-0 سے شکست دی تھی۔
سمتھ کا کہنا تھا کہ انہوں نے وارنر کی جگہ ٹاپ آرڈر میں جگہ لینے کی کوشش کی جس کی وجہ سے سلیکٹرز کو گرین کو اوپننگ کے لیے کہنے کی بجائے چوتھے نمبر پر بھیجنا ممکن ہوسکا ہے۔
سمتھ نے اس ہفتے کے اوائل میں نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ وہ (سلیکٹرز) یقینی طور پر کیمرون (گرین) کو بھی ٹیم میں شامل کرنے اور اپنے بہترین چھ بلے بازوں کو کھلانے کے خواہاں تھے اور ان کے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ اوپر آئیں اور بیٹنگ کریں۔
’میں ایک طویل عرصے سے کھیل رہا ہوں اور ایک تجربہ کار کھلاڑی ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ یہ کچھ ایسا ہے جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔‘
تاہم ویسٹ انڈیز کے لیے یہ ایک بالکل مختلف صورت حال ہے، جس میں ان کے 15 رکنی سکواڈ میں سات کھلاڑی پہلی مرتبہ کھیل رہے ہیں۔
انہیں سابق کپتان جیسن ہولڈر اور ساتھی آل راؤنڈر کائل میئرز کی بھی کمی محسوس ہوگی جنہوں نے ٹی 20 فارمیٹ پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے دورے سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ویسٹ انڈیز نے 1997 کے بعد سے آسٹریلیا میں ایک بھی ٹیسٹ میچ نہیں جیتا ہے اور گذشتہ موسم گرما میں جب اس نے آسٹریلیا کا دورہ کیا تھا تو اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ٹیسٹ میچوں کا تجربہ رکھنے والے سکواڈ میں کپتان کریگ بریتھ ویٹ، نائب کپتان الزاری جوزف، ایلک اتھانازے، تاگینارائن چندرپال، جوشوا ڈی سلوا، گڈاکیش موتی، کرک میکنزی اور کیمار روچ شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جوزف نے کہا کہ ویسٹ انڈیز نے اس بات سے سبق حاصل کیا ہے کہ کس طرح پاکستان نے آسٹریلیا سے دو ٹیسٹ جیتنے کے مواقع بھی ملے لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔
جوزف نے کہا کہ وہ یہاں دو ٹیسٹ میچ جیتنے آئے ہیں، ہم یہاں صرف کھیلنے کے لیے نہیں آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے پاکستان کی کچھ چیزوں پر نظر ڈالی اور وہ ان میں سے کچھ پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن ہم سب کے کام کرنے کے طریقے مختلف ہیں۔
’ہمارے لیے، یہ بہادر ہونے، مثبت ہونے کے بارے میں ہے۔‘
جوزف نے اعتراف کیا کہ مہمان ٹیم ٹیسٹ میدان میں کمزور تھی اور انہوں نے 12 ماہ قبل آسٹریلیا کے اپنے آخری دورے کے بعد سے صرف چھ میچ کھیلے ہیں۔
اس کے برعکس آسٹریلیا نے 17 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں۔
جوزف نے کہا کہ 'میرے خیال میں پچھلی بار ہماری تیاری تھوڑی کم تھی۔‘
’ہمیں صرف تھوڑا بھرپور رہنے اور صبر کرنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر یہ کیریبین سے مختلف ہے، تھوڑا سا زیادہ باؤنس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں بہت زیادہ وائٹ بال کرکٹ کھیل کر آ رہا ہوں اس لیے میرے لیے سرخ گیند میں واپسی اور اسے لمبے عرصے تک برقرار رکھنا ہے۔‘