نوبیل امن انعام یافتہ پاکستان کی ملالہ یوسفزئی نے اتوار کو مسلمان ملکوں کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ کابل کی طالبان حکومت کو ’جائز‘ نہ بنائیں اور افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں کی مخالفت کر کے ’حقیقی قیادت کا مظاہرہ کریں۔‘
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسلام آباد میں منعقدہ عالمی سکول گرلز کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز ملالہ نے تعلیمی حکام سے کہا کہ ’انہیں (افغان طالبان کو) قانونی حیثیت نہ دیں۔‘
27 سالہ ملالہ نے مزید کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ بطور مسلمان رہنما آپ آواز اٹھائیں، اپنی طاقت کا استعمال کریں۔ آپ حقیقی قیادت دکھا سکتے ہیں۔‘
پاکستان کے وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے ہفتے کو اے ایف پی کو بتایا تھا کہ طالبان حکومت کے مندوبین نے مدعو کیے جانے کے باوجود دو روزہ کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔
ملالہ نے کانفرنس کو بتایا کہ ’سادہ لفظوں میں کہوں تو طالبان خواتین کو انسان کے طور پر نہیں دیکھتے۔ وہ اپنے جرائم کو ثقافتی اور مذہبی جواز میں ڈھانپ لیتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اسرائیل کی غزہ میں بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتی رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ کے پورے تعلیمی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا۔
’انہوں نے تمام یونیورسٹیوں پر بمباری کی ہے۔ 90 فیصد سے زیادہ سکولوں کو تباہ کیا اور سکولوں کی عمارتوں میں پناہ لینے والے شہریوں پر اندھا دھند حملے کیے۔
’میں اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتی ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’فلسطینی بچوں نے اپنی زندگی اور مستقبل کھو دیا ہے۔ ایک فلسطینی لڑکی کا وہ مستقبل نہیں ہو سکتا جس کی وہ حقدار تھی اگر اس کے اسکول پر بمباری کی جائے اور اس کا خاندان مارا جائے۔‘
ملالہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ہفتے کو پاکستان پہنچی تھیں۔ اس سے قبل انہوں نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ ’میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق اہم موضوع پر اسلامی دنیا کے اہم رہنماؤں میں اپنی موجودگی پر خوش ہوں۔
’میں اتوار کو اپنے خطاب میں بچیوں کے سکول جانے کے حق کے تحفظ پر بات کروں گی اور اس پر بات ہو گی کہ کیوںکہ نہ مسلم رہنما طالبان کو عورتوں اور بچیوں کے خلاف جرائم پر جواب دہ بنائیں۔‘
’مشترکہ کوششیں‘
گذشتہ روز کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ تھا پاکستان سمیت اسلامی دنیا میں درپیش لڑکیوں کی تعلیم کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم ایک بڑا چیلنج ہے جس کے لیے آواز بلند کرنا ہو گی۔
’غریب ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانا ایک مشترکہ ذمہ داری ہے، اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام مسلم ممالک اس مقصد کے لیے یکجا ہو کر کام نہ کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 23 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں جن میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے۔ ’لڑکیوں کو تعلیم نہ دینا ان کو روشن مستقبل کے حصول سے روکتا ہے۔‘
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’تعلیم ایک معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے اور لڑکیوں کی تعلیم کو نظرانداز کرنا دراصل معاشرتی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ کانفرنس کے انعقاد کے لیے وہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے شکرگزار ہیں۔
شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے اپنے خطاب میں تعلیم کو ’مسلم دنیا کی ترقی کا ستون‘ قرار دیا اور کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
خواتین کی تعلیم کی اہمیت پر مبنی اس دو روزہ کانفرنس میں مسلم اور دوست ممالک کے وزرا، سفیر اور بین الاقوامی اداروں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔