پی آئی اے کا صف اول کی ایئر لائن سے زوال کا سفر

’باکمال لوگ اور لاجواب سروس‘ کے نام سے شہرت پانے والی پی آئی اے اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں حکومت سمجھتی ہے کہ اسے چلانا سود مند نہیں۔

پاکستان کی قومی فضائی کمپنی ’پی آئی اے‘ جس کا شمار کبھی دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوتا تھا اور کئی اعزازات بھی اس کے نام رہے لیکن پھر 1980 کی دہائی کے اواخر سے اس کے ’ڈاؤن فال‘ یعنی تنزلی کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔

برسوں سے خسارے کے سبب اب حکومت بھی اسے چلانے سے قاصر ہے اور اسی لیے اس کی نجکاری کا فیصلہ ہو چکا ہے اور مناسب خریدار کی تلاش اور انتظار ہے۔

پی آئی اے کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس کا آغاز پاکستان کے قیام سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ 1946 میں، یعنی پاکستان کی آزادی سے ایک سال قبل ’اوریئنٹ ایئر ویز‘ کے نام سے ایک فضائی کمپنی بنی۔

اس کمپنی کے قیام کی ہدایت بانی پاکستانی محمد علی جناح نے دی تھی اور انہوں نے ایک معروف صنعت کار ایم اے اصفہانی کو ترجیحی بنیادوں پر فضائی کمپنی قائم کرنے کا کہا تھا۔

اور یوں 23 اکتوبر 1946 کو اوریئنٹ ایئرویز لمیٹڈ کے نام سے ایک نئی ایئر لائن نے جنم لیا جسے ابتدائی طور پر کلکتہ میں ایک پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر رجسٹرڈ کروایا گیا اور پھر چار جون 1947 کو یہ ایئرلائن آپریشنل ہو گئی۔

اوریئنٹ ایئرویز کے آپریشنل آغاز کے دو ماہ کے بعد ہی پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور پھر اس ایئرلائن نے پاکستان ہی کو اپنا مرکز بنا لیا۔

قیام پاکستان کے بعد جب حکومت مضبوط ہوئی تو اس نے ایک قومی ائیر لائن بنانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد 10 جنوری 1955 کو اوریئنٹ ایئرویز کو پی آئے اے میں ضم کر دیا گیا۔

جس کے بعد پی آئی اے کی پہلی بین الاقوامی سروس سال 1955 میں شروع ہوئی اور پھر ایک مختصر ہوائی بیڑے سے شروع ہونے والی یہ ایئر لائن دنیا کی صف اول کی فضائی کمپنیوں میں سے ایک بن گئی۔

1960 میں پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئر لائن بنی جس میں بوئنگ 707 شامل کیا گیا۔

پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئر لائن تھی جس نے اپنے ملک سے ناروے تک پروازوں کا آغاز کیا۔ حکومت پاکستان نے 1959 ایئر کموڈور نور خان کو پی آئی اے کا مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا اور ان کے دور کو اس قومی ایئر لائن کا سنہرا دور کہا جاتا ہے جب انہوں نے اسے دنیا کی صف اول کی ایئرلائنز کی صف میں لا کھڑا کیا۔

لیکن اس قومی ایئرلائن سے وابستہ بعض سابق عہدیدار اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر ہنر مند اور کم اہلیت کے حامل عملے کی سیاسی بنیادوں پر بھرتی اور مسافروں کے لیے سروسز میں بتدریج کمی، جہازوں کو بغیر حکمت عملی کے گراؤنڈ کرنے اور کئی منافع بخش روٹ بند ہونے سے پی آئی اے خسارے کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔

ارشاد غنی پی آئی اے سے 35 سال وابستہ رہے اور اس قومی ایئر لائن کے شعبہ مارکیٹنگ کے سابق سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔

’اورینٹ ایئر ویز سے پی آئی اے بنی جو قائداعظم کی خواہش پہ بنائی گئی تھی، اصفہانی صاحب نے بنائی تھی۔‘

انہوں نے کہا جب 1959 میں نور خان جب ایئرلائن کے چیئرمین بنے تو اس دور میں نہ صرف نئے جہاز شامل ہوئے بلکہ پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں ہونا شروع ہوا۔

پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن ’پی آئی اے‘ نے دنیا کی بہترین ائیرلائنز میں سے ایک عرب امارات کی ’ایمریٹس‘ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں بھی کردار ادا کیا۔

ایمریٹس کی پہلی پرواز بھی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے پائلٹ کیپٹن فضل غنی میاں نے اڑائی تھی جنہیں 1987 میں پی آئی اے نے متحدہ عرب امارات کی پہلی ایئرلائن کے فلائٹ آپریشن کے قیام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

ایک معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات کی ایئر لائن کے قیام میں مدد کے لیے پی آئی اے نے اپنے پائلٹ، انجینیئر اور دو طیارے فراہم کیے تھے۔

صحافی صلاح الدین جو ایوی ایشن انڈسٹری سے متعلق خبروں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں  کا کہنا ہے کہ ’پی آئی اے کسی زمانے میں واقعی باکمال لوگ لاجواب سروس ہوتی تھی بڑا اس کا نام تھا دنیا کی (کئی) ایئر لائنیں پی آئی اے نے بنائیں، سب سے بڑی مثال ایمریٹس، جس نے اپنا کال سائن ای کے رکھا ہوا ہے ای کے کا مطلب ہے ایمریٹس کراچی پہلی پرواز انہوں نے شروع کی تھی کہ جو ہمارے پی آئی اے کے انجینیئرز نے ان کو تیار کر کے دی تھی۔‘

پی آئی اے جس کا آپریشن دنیا کے چار براعظموں تک پھیلا ہوا تھا اب اس میں بھی کمی آئی۔

 یورپ جو کبھی پی آئی اے کے لیے ایک بہت بڑی مارکیٹ تھی مئی 2020 میں اس وقت کے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے انکشاف کیا تھا کہ پی آئی اے کے کئی پائلٹس کے لائسنسز مشکوک ہیں۔ 

جس کے بعد یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی نے یکم جولائی 2020 کو پی آئی اے کے یورپی ممالک کے لیے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو معطل کر دیا تھا۔

1980 میں زوال کے آغاز کے بعد سے پی آئی اے کے چھ طیارے کریش کر چکے ہیں جبکہ ایک آج تک لاپتہ ہے۔ یہ تکنیکی زبوےالی کا پتہ دیتا ہے۔ کئی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو اس میں سفر کرنے سے منع بھی کر دیا۔

لیکن اب حالات بدل چکے ہیں حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کی کم ازکم قیمت 85 ارب تین کروڑ روپے مقرر کر رکھی ہے لیکن بولی میں کسی نے یہ قیمت نہیں لگائی جس پر اب یہ معاملہ ایک بار پھر التوا کا شکار ہے۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان کا کہنا ہے کہ اس وقت ایئرلائن کے پاس کل 33 جہاز ہیں جن میں سے 17 یا 18 آپریشن ڈیوٹی پر ہیں لیکن باقی یا ’مینٹینس یا سٹوریج پر ہیں۔‘

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان کہتے ہیں کہ پی آئی اے کے ’ڈاؤن فال‘ یا تنزلی کے معاملے کا درست ادراک ملک کی معاشی مشکلات کو سمجھے بغیر ممکن نہیں۔

’اگر آپ کے ملک میں معاشی سرگرمیاں چل رہی ہیں تو (اس کا اثر) ٹریول پر آتا ہے اگر آپ کے ملک میں سیاحت چل رہی ہوتی ہے تو ٹریول چلتا ہے اسی طرح آپ ایسٹ یا ویسٹ کنیکٹیویٹی بنا رہے ہوتے ہیں۔ آپ کے ملک کے اندر (تجارتی سامان) پروڈیوس اچھا آرہا ہوتا ہے، تو کارگو کی ایکٹیویٹی (سرگرمی) اچھی ہوتی ہے ایئر لائنز کا دارومدار معاشی حالات پر ہوتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ جس زمانے کو پی آئی اے کا سنہری دور کہا جاتا ہے تب ’پاکستان کا معاشی ریٹ بھی دنیا کے چند بڑے اور تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہوتا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں انیس سو ساٹھ یا ستر کی شروع کی دہائی کی انیس سو اسی کے واقعات آپ سنتے ہیں۔

اس وقت بھی معاشی استحکام تھا نوے میں معاشی پوزیشن ڈاؤن ہوئی، تو ہم ریجن میں پیچھے رہنا شروع ہوئے تو اس کا اثر پی آئی اے پر پڑا۔ نائن الیون کے واقعہ کا پی آئی اے پر اثر پڑا اور برے معاشی دور کے بعد بہتری نہیں آئی۔ پی آئی اے کے مسئلے وہی ہیں جو پاکستان کے مسئلے ہیں۔‘

رفعت یاسمین 44 سال تک پی آئی اے سے وابستہ رہیں وہ پاکستان کی قومی ایئرلائن سے اپنی وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’پی آئی اے نے بہت ساری اور ایر لائنز کو بنایا لیکن بد قسمتی سے  اپنے آپ کو ہم نہیں بنا سکے۔

’ساری دنیا میں ہم جاتے تھے، دمشق، قاہرہ، پیرس، نیویارک، واشنگٹن، ایتھنز، روم، جکارتہ، منیلا، بنکاک، سنگاپور، کوالالمپور۔

ٹورونٹو ایک واحد اسٹیشن رہ گیا جہاں آپ جاتے ہیں، استنبول فلائٹس ہیں لیکن ہمارا نیٹ ورک ختم ہو گیا  ہم لندن جاتے تھے برمنگھم جاتے تھے یو کے میں ہمارے چار سے پانچ سٹیشن تھے۔‘

سوسائٹی آف ایئر کرافٹ انجنیئرز کے صدر عبداللہ خان جدون کہتے ہیں کہ 70 اور 80 کی دہائی میں جب دنیا بھر میں ایئر لائنز تنزلی کا شکار تھیں اس دوران پی آئی اے نے اپنے آپریشنز کو بڑھایا۔

تاہم ان کے خیال میں پی آئی اے کے بعض جہازوں کو بغیر کسی حکمت عملی کے گراؤنڈ کرنے کے فیصلوں سے ایئر لائن کا زوال شروع ہوا۔

’ہمارے انجنینئرنگ اور پی آئی اے ٹریننگ سینٹر سے ٹرینڈ لوگ دنیا میں ایئر لائنز کو سرو (خدمات فراہم) کر رہے ہیں دنیا میں امریکن ایئر ، یونائٹڈ ایئر اور برٹش ایئر ویز کو بھی ورژن اٹلانٹک کو بھی۔‘

ماہر معیشیت ظفر موتی والا کہتے ہیں کہ پی آئی اے صرف پاکستان ہی کی نہیں بلکہ وہ خطے بہترین ایئر لائن تھی۔

’یہ ساؤتھ ایسٹ ایشیا کی بیسٹ ایئر لائن میں سے تھی، جیکی کینیڈی نے اسپیشلی جب (پی آئی اے) فلائی کیا تھا تو انہوں نے یہ نام رکھا تھا گریٹ پیپل ٹو فلائی ود اور وہ ہم نے ایئر لائن کے لیے استعمال بھی کرنا شروع کر دیا۔‘ 

رفعت یاسمین، سابقہ ایئر ہوسٹس، کہتی ہیں کہ جب کہ پی آئی اے میں ایسے لوگ بھرتی اور اہم عہدوں پر فائز ہونا شروع ہوئے جن کو ایئر لائن سے کوئی دلچسپی نہیں تھی تو اس تنزلی کا آغاز ہوا۔

’ہماری (پی آئی اے) کی سروس بہترین ہوا کرتی تھی، ہمارا کھانا بہترین تھا، ہمارا کیب کرو اور دفاتر میں ہمارا عملہ بہترین میں سے ایک تھا۔‘

’‏مائی ہارٹ بریکس (میرا دل دکھتا ہے)  جب میں آج ایئر لائن ہوں،  میرا بہت دل دکھتا ہے بہت دل دکھتا ہے ہمارے ساری روٹس بند ہو گئے ہم دنیا میں گلوب پہ جتنے ممالک ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے ماسوائے چند (ملکوں کے ہم) ساری دنیا میں ہم جاتے تھے۔‘

پی آئی اے کے ترجمان پر امید ہیں کہ قومی ایئر لائن اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔ ’بھروسہ رکھیں پی آئی اے پر، پی آئی اے کی بنیادیں مضبوط ہیں۔پی آئی اے میں پیشہ ور لوگ موجود ہیں، وہ دن دور نہیں ہیں ہم اُمید پر بات نہیں کرتے جو منصوبے دیکھ رہا ہوں۔ ہوا بازی کی صنعت کو دیکھ رہا ہوں بہت زیادہ عرصہ نہیں لگے گا اور دیکھیں گی کہ پی آئی اے دوبارہ ترقی کرے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان