معذوری جسم میں نہیں ذہن میں ہوتی ہے

کم از کم پنجاب میں خصوصی قوانین اور پالیسیز مرتب ہیں جن میں افراد باہم معذوری کے لیے کوٹہ سسٹم ہے جس کے تحت ان کے لیے ملازمتوں میں خصوصی نشستیں مختص کی گئی ہیں۔

12 جون 2023 کی اس تصویر میں جنوبی وزیرستان کی پشتون ڈِس ایبل فیڈریشن (پی ڈی ایف) کے زیر اہتمام سپیشل افراد اپنے مطالبات کے حق میں ‌اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کی عمارت کے باہر احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں (پشتون ڈِس ایبل فیڈریشن)

کچھ معلومات ایسی ہوتی ہیں کہ ہم میں سے بہت کم لوگ ان پر دھیان دیتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ہمیں معلوم ہوتا ہے اس کے بارے میں تو ہم ششدر رہ جاتے ہیں کہ ہم نے تو اس حوالے سے کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں تھا۔ اس کے اعداد و شمار ہمیں اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی اعداد و شمار افراد باہم معذوری کے حوالے سے ہیں۔

حال ہی میں لاہور میں ایک سیمینار ہوا۔ یہ سیمینار افراد باہم معذوری کے حقوق اور استحقاق کے حوالے سے تھا۔ بہت سے افراد باہم معذوری سے ملنے کا موقع ملا لیکن ان کی ہمت آسمانوں سے چھو رہی تھی۔ مختلف پینلز میں بحث ہوئی اور انہوں نے اپنی اپنی تجاویز دیں۔

ایک ایسا شامل معاشرہ تشکیل دینے کی بات ہوئی جو ہر فرد کو برابر مواقع فراہم کرے، ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے اور افراد باہم معذوری کے حقوق کا تحفظ کرے۔

اور درست بھی ہے کیونکہ افراد باہم معذوری ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں اور معاشرے میں ان کے لیے سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ افراد باہم معذوری کو خصوصی توجہ اور سہولتوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کر سکیں اس افراد باہم معذوری کو معاشرتی قبولیت، تعلیم، روزگار اور صحت کی سہولیات میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔

اسلام آباد میں شاپنگ مال کھلا اور لوگوں کا رش تھا۔ ایک جگہ افراد باہم معذوری کی پارکنگ کا سائن لگا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص گاڑی میں بیٹھا تھا اور گارڈ کے ساتھ بحث کر رہا تھا۔ بہت دیر تک گرما گرم بحث رہی اور گاڑی والا اس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ اس کو افراد باہم معذوری کی جگہ پر گاڑی کھڑی کرنے دے اور گارڈ منع کر رہا تھا۔

خیر مختصراً گاڑی والے کو جہاں جگہ ملی اس نے گاڑی کھڑی کی اور جب وہ اترا تو اس کے ساتھ خاتون نے گاڑی سے وہیل چیئر اتاری اور وہ دونوں مال میں چلے گئے اور جب وہ مال کے اندر جا رہے تھے تو گارڈ کی نظروں میں کوئی احساس ندامت نہیں تھا۔ میں آگے بڑھا اور گارڈ سے پوچھا کہ اس کو گاڑی پارک کرنے کیوں نہیں دی اس کا کہنا تھا کہ یہ جگہ وی آئی پی مہمان کے لیے ہے۔ ہاں بھئی اکثر وی آئی پی سے زیادہ معذور افراد کون ہو سکتے ہیں جو تھوڑا سے پیدل چلنے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔

کم از کم پنجاب میں خصوصی قوانین اور پالیسیز مرتب ہیں جن میں افراد باہم معذوری کے لیے کوٹہ سسٹم ہے جس کے تحت ان کے لیے ملازمتوں میں خصوصی نشستیں مختص کی گئی ہیں۔

تعلیم کے میدان میں بھی حکومت نے اطفال باہم معذوری کے لیے خصوصی اسکول قائم کیے ہیں اور ان کو مفت تعلیم ، کتابیں اور دیگر سہولیات فراہم کر رہی ہے۔

صحت کے شعبے میں افراد باہم معذوری افراد کے لیے مفت علاج، مصنوعی اعضا اور وہیل چیئرز جیسی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ افراد باہم معذوری کو معاشرے کا فعال رکن بنانے کے لیے خصوصی تربیتی پروگرامز اور فنڈز کا انتظام کیا جاتا ہے۔ حکومت پنجاب کی طرف سے افراد باہم معذوری کے لیے تحفظ کارڈ بھی ہے تاکہ ان افراد کو مساوی مواقع فراہم ہوں اور خودمختار زندگی گزارنے کے قابل ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن کیا اتنا کافی ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ افراد باہم معذوری کے حوالے سے موجودہ قوانین میں ترمیم کی جائیں اور نہ صرف پنجاب بلکہ تمام صوبوں میں اور وفاق میں ایسے افراد کی باڈی شیمنگ، ہراسگی اور امتیازی سلوک کو جرم قرار دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں افراد باہم معذور بچوں کو زیادہ سے زیادہ سہولت دیں اور اساتذہ  اور سکولوں کی استطاعت میں اضافہ کریں کہ وہ ان بچوں کے لیے سب کی شمولیت والا ماحول میسر کرسکیں۔

اگرچہ حکومت پنجاب کی جانب سے جاری کردہ ہمت کارڈ ایک اچھا قدم ہے لیکن اس کو مزید توسیع دی جائے اور مالی معاونت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہیلتھ کیئر اور معاون آلات اور الیکٹرک لمبز پر سبسڈی بھی دی جائے۔ اور ان افراد کے لیے لوکل گورنمنٹ، صوبائی اسبلیوں اور قومی اسمبلی میں ریزرو سیٹس ہونی چاہییں۔

صرف بینکوں کے باہر ریمپ بنا کر یہ کہہ دینا کہ ہم نے افراد باہم معذوری کے لیے سہولت مہیا کی ہے جبکہ وہ افراد باہم معذوری کیا دیگر لوگوں کے لیے بھی سہولت نہیں ہے۔ کئی ریمپ تو ایسے بنائے گئے ہیں کہ وہیل چیئر کیا اس پر کوئی بندہ چل بھی نہیں سکتا کہ کہیں وہ گر نہ جائے۔

افراد باہم معذوری کو در پیش مسائل کو بہتر طور پر سمجھنا، ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانا اور انہیں ایک شمولیاتی معاشرتی ڈھانچے کا حصہ بنانا بہت اہم ہے اور حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہونی چاہیے۔

اس تحریر کے آغاز میں میں نے اعداد و شمار کی بات کی تھی اور کہا تھا کہ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر ہم توجہ نہیں دیتے اور جب ان کے بارے میں علم ہوتا ہے تو ہم حیران رہ جاتے ہیں۔ سچ سچ بتائیں کہ آپ میں سے کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ افراد باہم معذوری کی پاکستان میں کل تعداد کیا ہے۔ پاکستان کے 2024 کے ڈیجیٹل سینسس کے مطابق افراد باہم معذوری ملک میں کی کل آبادی کا 9.6 فیصد ہے۔ حیران رہ گئے نا!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ