طلسم ہوشربا کی کہانیوں میں ایک ایسے جن کا ذکر ملتا ہے، جو چراغ کے رگڑنے سے حاضر ہو جاتا ہے اور حکم دینے پر پھر وہ محیر العقول کام سر انجام دیتا ہے۔
اسی طرح بوتل میں بند جن کی کہانی بھی زبان زد عام ہے کہ ڈھکن کے کھلتے ہی وہ کس طرح آزاد ہو جاتا ہے اور پھر قابو میں نہیں آتا۔ یہ دونوں کہانیاں مجھے غلام حسن حسنو کی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھ کر یاد آئیں۔ حسنو نے حال ہی میں اپنی ایک تصویر شیئر کی، جس میں انہوں نے ایک کتاب اٹھا رکھی تھی اور ساتھ ہی پوسٹ میں لکھا کہ آج 133 ویں کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آگئی ہے۔
اب بندہ اسے جن کا کام نہ مانے تو کیا مانے کہ ایک عمر رسیدہ شخص، جن کے آرام کرنے کے دن ہیں، وہ خپلو سے لاہور تک سفر کرتے ہیں، پبلیشر کے سر پر سوار رہ کر گیارہویں درجن کے ہندسے کو عبور کرنے والی کتاب شائع کروا دیتے ہیں اور غضب خدا کا کہ اسی پر اکتفا نہیں بلکہ آگے مزید کتابیں لکھنے کا ارادہ باندھا ہوا ہے۔ یہ جن ہی ہوسکتا ہے کوئی عام انسان نہیں۔
غلام حسن حسنو کا نام کافی پہلے سے سنا ہوا تھا۔ پھر ان کا تعارف ان کی پہلی کتاب ’تاریخ بلتستان‘ کے حوالے سے ہوا، جو 1992 میں چھپ کر منصہ شہود پر آگئی تھی۔
غالباً بلتستان کی روحانی اور مذہبی تاریخ پر یہ کسی مقامی لکھاری کی پہلی خامہ فرسائی تھی۔ گو کہ اس کتاب کے کئی مندرجات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
یہ تعارف بھی صرف ان کی کتاب پڑھنے کی حد تک تھا۔ بالمشافہ پھر بھی ملاقات نہیں رہی۔
غلام حسن حسنو محکمہ صحت میں ملازم تھے اور ان کا تبادلہ خپلو میں ہوا تھا۔ وہ جب بھی چھٹیوں میں سکردو آتے تو حسنو کا تذکرہ ضرور کرتے۔ ساتھ ہی انہوں نے کاروان ادب نامی مجلے کی ایک کاپی بھی تھما دی جو خپلو سے شائع ہوتی تھی۔ اس رسالے کی مشاورتی کمیٹی میں حسنی اور حسنو دونوں تھے۔ اکثر لوگوں کو حسنی اور حسنو کو پہچاننے میں دِقت ہوتی تھی کہ کسے حسنی کہیں اور کس کو حسنو، کبھی حسنی کے نام لکھے گئے خط حسنو کو ملتے اور کبھی حسنو کے نام لکھی گئی تحریریں نامہ بر حسنی کو تھما دیتا اور یہ مخمصہ کبھی دور نہیں ہوا۔
لیکن دونوں چندے آفتاب تو چندے ماہتاب۔ حسنی کے توسط سے ہی حسنو سے ملاقات ہوگئی اور تعلق اور محبت کا سفر جاری ہے۔
بظاہر تو حسنو سے مل کر نہیں لگتا کہ ان کا ادب سے کوئی واسطہ ہوسکتا ہے۔ سر پر اونی گول ٹوپی، ہر وقت واسکٹ پہنے میانہ قد کا ایک شخص مگر واقفان حال جانتے ہیں کہ اس شخص کے من میں جو چنگاریاں ہیں، وہ کتنی شرربار ہیں۔
ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع تب ملا جب میں 2010 میں آغا خان کلچرل سروس پاکستان کے تحت خپلو پیلس کے تجدیدی کام میں شامل تھا۔ وہیں پر شام کو واک کے دوران ہر دوسرے تیسرے دن حسنو سے ملاقات ہوتی اور ان کے گھر سبز چائے اور کھانے کی دعوت ملتی تھی۔
خسیرگرونگ محلے میں مقامی طرز تعمیر کے ایک مکان میں ان کی رہائش تھی اور جس کمرے میں ہم چائے پیتے تھے، اس کی دیواروں میں بنے شیلف کتابوں سے بھرے ہوئے تھے۔
ادب، تاریخ اور تصوف و سلوک کے موضوعات پر کمال کی کتابیں تھیں اور ان سے بڑھ کر مختلف مخطوطات جو انہوں نے نہ جانے کتنی خاک چھان کر جمع کر رکھے تھے۔
حسنو مدرس رہے ہیں اور ملازمت کے آخری ایام میں میونسپل کمیٹی خپلو کی لائبریری کے منتظم تھے۔ انہوں نے شاندار کتابوں کا نہ صرف انتخاب کیا تھا بلکہ میونسپل کمیٹی کے کار پردازوں سے لڑ جھگڑ کر کتابیں خریدنے کی ذمہ داری بھی اپنے سر لے لی تاکہ اچھی کتابیں لائبریری کا حصہ ہوں، نہ کہ سرکاری خانہ پوری کا روایتی طریقہ کار اپنایا جائے۔
حسنو خود کو سہروردی لکھتے ہیں جو مشہور صوفیہ آڈر ہے۔ نہ جانے یہ ان کا روحانی رشتہ ہے یا عقیدت کہ وہ خود کو سہروردی لکھتے ہیں۔
بلتستان میں اسلام کی اشاعت کا آغاز چودہویں صدی عیسوی میں امیر کبیر سید علی ہمدانی کی آمد سے ہوا، جس کا تذکرہ مختلف کتابوں میں ملتا ہے۔
ہمدان سے تعلق رکھنے والے اس صوفی نے کشمیر اور بعد ازاں بلتستان میں اسلام کی تعلیم و ترویج کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعض محققین کے مطابق وہ صرف کشمیر تک آئے تھے اور بلتستان میں ان کے شاگرد پہنچے تھے۔ ان میں سید محمد نور بخش کا نام سب سے بلند اور سرفہرست ہے۔
بلتستان میں موجود قدیم مساجد اور خانقاہیں زیادہ تر امیر کبیر سید علی ہمدانی سے منسوب ہیں کہ ان کی بنیاد امیر کبیر نے رکھی تھی۔
بلتستان کی پہلی مسجد جو ’مسجد امبوڑک‘ کہلاتی ہے، کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر امیر کبیر سید علی ہمدانی کے ہاتھوں ہوئی تھی۔
یہ لکڑی کی چھوٹی سی دیدہ زیب مسجد شگر میں واقع ہے، جسے کچھ سال پہلے آغا خان کلچرل سروس نے اصلی حالت میں بحال کیا ہے اور تعمیراتی ورثے کی بحالی کے تحت یونیسکو ایوارڈ بھی ملا ہے۔
خپلو کی تاریخی خانقاہ چقچن بھی امیر کبیر ہی سے منسوب ہے اور اس پر غلام حسن حسنو نے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے۔
میں خپلو اور گرد و نواح میں چٹانوں پر قدیم زمانے کی لکھی گئی تحریروں اور اشکال کی تلاش میں گاؤں گاؤں جایا کرتا تھا۔ اس مرحلے میں کئی جگہوں پر حسنو بھی میرے ساتھ آئے۔
انہیں بھی ان قدیم Rockcarvings میں بڑی دلچسپی تھی اور وہ اس ورثے کو علاقے کی قدیم تاریخ کے لیے اہم ماخذ گردانتے تھے۔
علاہ ازیں حسنو کو بلتستان کے روایتی طرز تعمیر سے بھی بے حد لگاؤ تھا، جس کا اظہار ان کی کتاب ’بلتستان کی ثقافت‘ میں جا بجا نظر آتا ہے۔
گو کہ حسنو بہ ظاہر خشک طبیعت اور مدرسے کا قیل و قال والا شخص لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں۔
ان کو علاقے کی تاریخ، ثقافت، موسیقی، رسم و رواج اور تہذیب و تمدن سے اتنا ہی لگاؤ، محبت اور فکر ہے، جو زمانے کے ایک حساس صاحب علم و دانش کو ہونی چاہیے۔
بظاہر تو حسنو سے مل کر نہیں لگتا کہ ان کا ادب سے کوئی واسطہ ہوسکتا ہے۔ سر پر اونی گول ٹوپی، ہر وقت واسکٹ پہنے میانہ قد کا ایک شخص مگر واقفان حال جانتے ہیں کہ اس شخص کے من میں جو چنگاریاں ہیں، وہ کتنی شرربار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ان درجنوں کتابوں میں جو ترجمہ، تالیف اور تخلیقی شکل میں منظر عام پر آئی ہیں، ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔
کتابوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے۔ سلوک و معرفت کی کیا کیا گنج ہائے گراں کتابیں اور مخطوطات جو فارسی میں موجود ہیں اور صرف بڑی بڑی لائبریریوں کی زینت تھیں، حسنو نے ایک ایک کر کے ڈھونڈ نکالا، اپنی آنکھیں جلا ڈالیں اور انہیں اردو قالب میں ڈھالا ہے۔
اب یہ کتابیں صلائے عام ہے یاران نکتہ دان کے لیے، کی صورت میں شائع ہو کر پیش خدمت ہیں۔
ترجمہ اور تالیف کا کام کتنا مشکل اور ذمہ داری کا ہے، وہ صرف صاحبان علم ہی سمجھ سکتے ہیں، اس میں زبان و بیاں کی جو باریکیاں اور پیچیدگی سد راہ بنتی ہے، اسے صرف وہ عبور کرسکتے ہیں جو اس بحر کے شناور ہوں۔
خاص طور پر جب تحریر اور ترجمے میں عرفان و سلوک سے واسطہ ہو تو اس راہ کے منازل، صوفیانہ اصطلاحات اور واردات قلبی کی کیفیات کا اردو میں ترجمہ بہت ہی جاں گسل اور پیچیدہ ہے، جسے کماحقہ بیان کرنا کمال فن کی نشانی ہے۔
حسنو کے شوق، جرات اور حوصلے کی داد دیجیے کہ انہوں نے امیر کبیر سید علی ہمدانی کی ذخیرہ المحجوب، علاالدولہ سمنانی کے رسائل تصوف، گلدستہ تصوف، آثار شاہ ہمدان، کتاب ذکریہ، رسائل شاہ ہمدان، کتاب نوریہ، حکایت الصوفیہ سمیت کئی بلند پایہ کتابوں کا ترجمہ و تفسیر کی ہے۔
صوفیا کے ان رشحات قلم کے اردو تراجم کے علاوہ تاریخ بلتستان، ثقافت بلتستان، تاریخ مسجد چقچن ان کی خالصتاً بلتستان کی تاریخ و تمدن پر لکھی گئی کتابیں ہیں، جو شائع ہو کر داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔
وہ گذشتہ 20 سالوں سے نوائے صوفیہ نامی رسالے کے ایڈیٹروں میں شامل رہے ہیں اور آج کل اس کا ڈیجیٹل ورژن نکال رہے ہیں۔
ان کی علمی و ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے اکادمی ادبیات کی ستائش و تصدیق کے بعد 23 مارچ 2023 کو انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا، جس کے وہ بجا حقدار تھے۔