پاکستان میں سوائے بلوچستان کے باقی تینوں صوبوں میں اج کل بظاہر نوجوانوں کے لیے مخصوص سکیموں کا بڑھ چڑھ کر اعلان کیا جا رہا ہے لیکن کیا یہ سکیمیں دراصل طالب علم کو انفرادی فائدہ دیتی ہیں یا اس کا اجتماعی فائدہ بھی ہے؟ اور کیا صوبائی حکومتیں ان انفرادی فوائد کی سکیموں پر عوامی ٹیکس کا پیسہ لگا سکتی ہیں؟
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صوبے کے مختلف شہروں میں آج کل طلبہ سے نہ صرف ملاقات کر رہی ہیں بلکہ ان میں ہونہار سکالر شپ کے تحت جاری کردہ وظائف بھی تقسیم کر رہی ہیں۔
دیکھا جائے تو صوبہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کی طالب عملوں اور نوجوانوں کے حوالے سے متعارف کی گئی سکیمیں صوبہ پنجاب کو دوسرے صوبوں سے ممتاز کرتی ہیں اور صوبے میں بیک وقت طالب علموں کے لیے وظائف کا اجرا، لیپ ٹاپ اور الیکٹرانک سکوٹرز کی فراہمی اور نوجوانوں کے لیے بلاسود کاروباری قرضے خبروں کا متواتر حصہ ہیں۔
لیکن ایک لیپ ٹاپ یا ایک موٹر سائیکل ایک شخص کو فائدہ پہنچائے گی، ماہرین کا سوال ہے کہ کیا ان منصوبوں کو اجتماعی شکل نہیں دی جاسکتی جس سے ایک طالب علم اگر کمپوٹر استعمال نہیں کر رہا تو کوئی دوسرا اس سے فائدہ ٹھا سکے؟ کیا ماضی کے کسی محلے میں ریڈنگ روم کو کمپوٹر روم بنا کر علاقے کے اکثر نوجوانوں کو فائدہ نہیں پہنچایا جاسکتا؟
اسی طرح سوال یہ بھی ہے کہ ایک شخص کو موٹر سائیکل دینے سے بہتر نہیں کہ حکومت اہم روٹس پر فری بس سروس طلبہ کے لیے شروع کرے؟ ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس سے اچھی کارکردگی دکھانے والوں کے ساتھ ساتھ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔
اسلام آباد کے حکام نے اسی قسم کی ایک سکیم شہر کے مضافات میں رہنے والے طلبہ کے لیے شروع کی جس سے ان کے مطابق روزانہ آٹھ ہزار بچے اور بچیاں دور دراز علاقوں سے شہر کے بہترین ماڈل سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔
پنجاب کی بات کریں تو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے طالب علموں کے لیے ’ہونہار سکالر شپ، لیپ ٹاپ سکیم، الیکٹرک سکوٹرز‘ جیسے منصوبوں پر کام جاری رکھا ہوا ہے جبکہ نوجوانوں کے لیے انہوں نے چند روز قبل ہی وزیر اعلیٰ پنجاب آسان کاروبار فنانس اور آسان کاروبار کارڈ سکیموں کا باضابطہ افتتاح کیا ہے۔
آسان کاروبار فنانس سکیم کے تحت 10 لاکھ سے تین کروڑ روپے تک کے بلاسود قرضے دیے جائیں گے جبکہ آسان کاروبار کارڈ کے تحت پانچ سے 10 لاکھ کے قرضے دیے جائیں گے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے گذشتہ ہفتے کی سرگرمیوں پر نظر ڈالیں تو وہ تعلیمی شعبے میں متعدد سکیمیں متعارف کروا رہی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ ہونہار سکالرشپس کی تعداد اگلے برس 30 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار کر دی جائے گی جبکہ لیپ ٹاپس کی تعداد 40 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کر دیے جائیں گے۔
مریم نواز کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے طالب علموں کے لیے جدید لیپ ٹاپ کور آئی سیون کا انتخاب کیا ہے اور یہ ان طالب علموں کو دیے جائیں گے جو 65 فیصد نمبر حاصل کریں گے جبکہ ایک لاکھ طالب علموں کو ای بائیکس بھی دی جائیں گی۔
مریم نواز نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ اگر انہیں تعلیم کے لیے پنجاب کا پورا بجٹ بھی دینا پڑا تو وہ دے دیں گی۔
پنجاب محکمہ خزانہ کی ویب سائٹ پر موجود صوبہ پنجاب کے معاشی سال 2024 اور 2025 کے بجٹ میں صوبائی حکومت نے تعلیم کے لیے 669.7 ارب روپے کا بجٹ رکھا جو کہ گذشتہ مالی سال سے 13 فیصد زیادہ ہے۔
تعلیم کے لیے مختص سالانہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے 57 ارب روپے رکھے گئے وہیں وزیر اعلیٰ پنجاب لیپ ٹاپ منصوبے کے لیے بھی 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
محکمہ اعلی تعلیم کی آفیشل سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق ’ہونہار انڈر گریجویٹ سکالرشپ پروگرام‘ کے تحت حکومت پنجاب تمام 50 پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں، 16 میڈیکل کالجز، ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے 131 گریجویٹ کالجز کے ساتھ ساتھ لمز، فاسٹ نیشنل یونیورسٹی اور کامسیٹ جیسی اعلیٰ درجہ کی یونیورسٹیوں کے 68 منتخب شعبوں کے انڈر گریجویٹ ڈگری پروگرام کے اخراجات برداشت کرے گی۔
اس کے علاوہ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ، نسٹ اور سات دیگر معروف پرائیویٹ سیکٹر پنجاب کی یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو 30 ہزار سالانہ وظائف کی پیشکش کی جائے گی جس کے لیے صرف اس سال حکومت سات ارب روپے سے زیادہ کی سرمایہ خرچ کرے گی۔
ہونہار سکالرشپ پروگرام اگلے چار سالوں میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد طلبہ اور آٹھ سالوں میں 130 ارب روپے سے زیادہ کی مجموعی سرمائے کے گرد گھومے گی۔
دیگر صوبوں کی بات کریں تو خیبر پختونخوا میں سال 2022 میں تعلیم کارڈ کا اجرا کیا گیا تھا جو ایک سال کے لیے تھا لیکن اب پھر اس کارڈ کی رجسٹریشن جاری ہے۔ اس منصوبے کے تحت سکول اور کالجز کے مستحق طلبہ اس کارڈ کے ذریعے فیس، کتب اور دیگر اخراجات پورے کر سکیں گے۔
اس کے علاوہ خیبر پختونخوا نے نوجوانوں کو خود مختار بنانے کے کے لیے ’احساس نوجوان پروگرام‘ متعارف کروایا ہے جس کے تحت نوجوانوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے بلاسود قرضوں کی فراہمی کی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پروگرام کے پہلے حصے میں 18 سے 35 سال کے نوجوان تین سے پانچ افراد مل کر 10 سے 50 لاکھ روپے کے قرضے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ اس قرض کی واپسی آٹھ سال میں ہوگی۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں 18 سے 40 سال کے افراد ایک سے پانچ لاکھ روپے کے قرض کی درخواست دے سکتے ہیں اور اس میں خواتین اور معزور افراد کے کے لیے بھی کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔
بلوچستان میں طالب علموں یا نوجوانوں کے لیے کسی خاطر خوا سکیم کا آغاز نہیں کیا گیا البتہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے اکتوبر 2024 میں وزیر اعلیٰ یوتھ سکل ڈویلپمنٹ پروگرام کا افتتاح کیا جس کے تحت بلوچستان کے 30 ہزار نوجوانوں کو تربیت یافتہ بنا کر بیرونی ممالک ملازمتیں دلوانا ہے۔
سندھ کی بات کریں تو صوبائی حکومت نے یو این ڈی پی کی شراکت سے یوتھ ایجوکیشن، ایمپلائی منٹ پراجیکٹ شروع کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 15 ہزار نوجوانوں کو تعلیم، تربیت اور روزگار مہیا کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ سندھ حکومت نے بے روزگار نوجوانوں کے لیے الیکٹرک ٹیکسی سکیم متعارف کروانے کا منصوبہ بنایا ہے جس کا اعلان رواں ماہ سینیئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کیا تھا۔
سکالر شپ کا میرٹ؟
سرکاری میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے وہ طالب علم یہ سکالرشپ لے سکیں گے جنہوں نے انٹرمیڈیٹ میں 80 فیصد نمبر لیے ہوں، نجی یونیورسٹیز والے طلبہ کے لیے یہ شرح سائنس میں 70 فیصد جبکہ آرٹس کے مضامین میں 65 فیصد ہے۔
اسی طرح سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی سائنس مضامین میں 70 جبکہ آرٹس میں 65 فیصد نمبر اور ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے کالجز میں سائنس میں 65 جبکہ آرٹس مضامین میں 60 فیصد نمبر لینے والے طالب علموں کو یہ سکالر شپ دی جائے گی۔
تاہم ماہرین سمجھتے ہیں کہ بعض بچے تعلیم میں بہت اچھے ہوں لیکن تخلیق اور انٹرپرینیورشپ میں اچھ نہ ہوں اور اس سکیم سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ سکتے ہیں۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر فہد علی جو کہ لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں کے مطابق: ’عوام کے ٹیکس کی رقوم کا بہترین استعمال سرکاری تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم کو بلند کر کے اور فیس کو کم کر کے کیا جا سکتا تھا جس سے تمام طلبہ کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طلبہ کے ایک محدود گروپ میں لیپ ٹاپ دینے کی بجائے اگر پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں اور یونین کونسل کی سطح پر آئی ٹی لیب بنا دی جائیں تو اس سے تقریباً پوری آبادی کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دراصل ان سکیموں کے پیچھے معاشی اور تعلیمی عوامل کے ساتھ ساتھ سیاسی عوامل بھی کار فرما ہیں کیونکہ ایسی سکیموں سے سیاسی اہداف جلد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔‘
کیا پنجاب حکومت کے پاس کوئی ایسا منصوبہ ہے جو صوبے کے ہر طالب علم کو فائدہ پہنچائے؟
اس حوالے سے پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ لیپ ٹاپ، سکوٹیز، سکالر شپس۔ اس کے علاوہ تمام طلبہ کے لیے تعلیم ہی ہوتی ہے وہ سب کو مل رہی ہے، سکولوں میں اصلاحات ہو رہی ہیں ان کے نصاب کو ٹھیک کر رہے ہیں ان میں جوسہولیات موجود نہیں تھیں انہیں بھی پورا کیا جارہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی ریاست میں مفت اور اچھی تعلیم کے علاوہ کچھ بھی ہر کسی کے لیے نہیں ہوتا کہیں نہ کہیں آپ کو کچھ نہ کچھ پیمانے رکھنے پڑتے ہیں جیسے کہ جن بچوں کے والدین استطاعت رکھتے ہیں ان کو سکالرشپس کی ضرورت نہیں ہے، لیکن وہ بچے جو اپنی تعلیم صرف اس لیے مکمل نہیں کر سکتے کہ ان کے مالی مسائل ہیں، ان کو حکومت سکالرشپس دے رہی ہے۔ جتنی بھی سکیمیں آتی ہیں ان میں پیمانہ رکھنا پڑتا ہے اور وہ اسی لیے ہے کہ کوئی بچہ تعلیم کے مواقع سے محروم نہ رہے۔‘
ماہر معاشیات اور تعلیم ڈاکٹر فہد علی وزیر اعلیٰ پنجاب کی نوجوانوں اور طلبہ کے حوالے سے متعارف کروائی جانے والی سکیموں کے حوالے سے کہتے ہیں: ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ہنر مند افراد کی قلت ہے اس کو بڑھانے کے لیے یونیورسٹی ایجوکیشن ایک سودمند طریقہ ہے لیکن اس میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہمارے پاس نوجوان ان یونیورسٹیز میں جاتے ہیں چاہے سکالر شپس پر ہی چلے جائیں اس سے ان کی رسائی ہائر ایجوکیشن تک تو ہو جاتی ہے لیکن جس معیار کی تعلیم ان کو ملنی چاہیے کہ جس سے وہ مارکیٹ میں روزگار کے لیے مقابلہ کر سکیں وہ معیاری تعلیم ان کو میسر نہیں ہو پاتی۔‘
ڈاکٹر فہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ بجٹ میں ایسے اخراجات کا معیشت پر اثر جانچنا مشکل ہوتا ہے ’جیسے اگر صحت پر ہم پیسہ لگائیں گے تو ہمیں معلوم ہے کہ لوگوں کا علاج بہتر ہو جائے گا۔ تعلیم کے حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ آنے والے وقتوں میں پانچ سے دس سال میں اگر ہمارے پاس پڑھے لکھے ہنر مند افرا کی قوت ہو گی تو اس کا معیشیت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘
کیا ایسی سکیموں کا مقصد نوجوانوں کو سیاسی جماعتوں کی طرف راغب کرنا بھی ہے؟
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ’کسی بھی ملک اور معاشرے میں نوجوان نسل کی اپنی اہمیت اور حیثیت ہے۔ دنیا اپنی نوجوان نسل پر اعتماد کر کے اور انہیں تعلیم یافتہ بنا کر بہت آگے چلی گئی لیکن ہم پیچھے رہ گئے۔‘
ان کا اصرار تھا کہ بلاشبہ پی ٹی آئی نے سب سے پہلے نوجوانوں کے سیاسی کردار کو تسلیم کیا اور ان پر کام کیا اس کا انہیں بڑا فائدہ ہوا لیکن مجموعی طور پر نقصان یہ ہوا کہ نوجوان نسل کو سیاست زدہ تو کر دیا گیا مگر ان کے مسائل حل نہ ہوئے۔ اسی بنیاد پر ن لیگ نے بھی یوتھ پر توجہ دینا شروع کی۔‘
پہلے شہباز شریف نے دانش سکولوں اور لیپ ٹاپ کے ذریعے نئی نسل کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اب مریم نواز اس محاذ پر سرگرم ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نئی نسل میں ایک احساس محرومی غصہ اور ردعمل ہے اس لیے کہ ان کے مسائل سے صرف نظر کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مقاصد سیاسی بھی ہیں اور تعلیم کا فروغ بھی مگر کیا مریم نواز ان مقاصد میں کامیاب ہو پائیں گی فی الحال تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
'اچھا ہوتا اگر نئی نسل کو صرف تعلیم تک محدود رکھا جاتا تاکہ اس کے اچھے نتائج ملک و قوم کے حق میں بہتر ہوں البتہ انہیں سکالرشپ لیپ ٹاپ اور دیگر سہولتوں کی فراہمی ایک اچھا عمل ہے اس کے اثرات ضرور سامنے آئیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل کو پہلے تعلیم پھر روزگار اور پھر سیاسی بنانا ہی ٹھیک ہو گا۔ نئی نسل بہت ذہین ہے جسے وقتی مفادات کا اسیر بنا کر جیتا نہیں جا سکتا۔ سالڈ اقدامات کرنا ہوں گے۔
معاشی ماہرین کا اصرار ہے کہ حکومتیں عوام کے ٹیکس کے پیسے کی نگران ہوتی ہیں انہیں ایسی سکیموں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے جس سے سب کو فائدہ ہو ناکہ چند افراد کو۔