بحریہ ٹاؤن کے خلاف نیب کے اقدامات: عوام کی سرمایہ کاری خطرے میں؟

نیب نے عوام کو تنبیہ کی ہے کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے منصوبوں میں سرمایہ کاری نہ کریں لیکن ملک ریاض نے نیب کے بیان کو بے سر و پا قرار دیا ہے۔

ملک ریاض نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے تفصیلی بیان میں اپنی خاموشی توڑی ہے (ویڈیو گریب ایکس ملک ریاض)

قومی احتساب بیورو ’نیب‘ کی طرف سے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے حوالے سے دھوکا دہی، فراڈ، سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضے کے معاملات پر تفتیش اور عوام کو بحریہ ٹاؤن کے منصوبوں میں سرمایہ کاری سے تنبیہ کے بعد سوالات کھڑے ہو گئے ہیں کہ عوام جو سرمایہ کر چکی ہے اس کو کیا قانونی تخفظ حاصل ہو گا۔

نیب نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ ’دبئی میں روپوش ملک ریاض کی حوالگی کے حوالے سے دبئی حکام سے رابطے میں ہیں۔ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور دیگر افراد کے خلاف دھوکا دہی اور فراڈ کے کئی مقدمات زیر تفتیش ہیں، لہذا عوام بحریہ ٹاؤن کے دبئی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہ کریں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ قانونی ماہرین سے اس معاملے پر بات چیت کی۔

سابق نیب پراسیکیوٹر شاہ خاور نے کہا کہ ’نیب کی انکوائری کے تین مرحلے ہوتے ہیں جس میں پہلے کمپلین (شکایت) ہوتی ہے پھر انکوائری اور اس کے بعد تفتیش کا عمل ہوتا ہے۔ نیب کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک ریاض کا معاملہ ابتدائی مرحلے طے کر چکا ہے اس لیے نیب نے ملک ریاض کے نام اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔‘

اثاثے منجمد ہونے سے بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں اور سرمایہ کاری کرنے والوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس سوال کے جواب میں شاہ خاور نے کہا کہ مزید سرمایہ کاری کے لیے تو نیب نے عوام کو روک دیا ہے۔ ’جو سرمایہ کاری ہو چکی ہے یا جو لوگ بحریہ میں رہائش پذیر ہیں وہ نیب کے فریزنگ آرڈر کے خلاف نیب میں ہی اعتراضات داخل کرا سکتے ہیں، وہاں اگر سنوائی نہیں ہوتی تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا فورم موجود ہے جہاں سے وہ بنیادی حقوق کے تخفظ کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’نیب کی جانب سے اثاثے منجمد کیے جانے کے دوران اعتراض داخل کرانے کے لیے 15 دن کا وقت ہوتا ہے۔ اگر 15 دن کا وقت گزر چکا ہے تو براہ راست ہائی کورٹ بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ’ملک ریاض کے اثاثے منجمد ہونے کے بعد بحریہ ٹاؤن میں پہلے سے خرید و فروخت کرنے والے اب مزید زمین یا گھر فروخت نہیں کر سکیں گے لیکن وہ اپنے گھروں میں رہتے رہیں گے۔ عدالت جب قبضے کی زمین پر بنے بحریہ ٹاؤن کا حتمی فیصلہ کرے گی تو تب ہی وہاں کے رہائشیوں کی قسمت کا فیصلہ ہو گا۔‘

سیکرٹری اسلام آباد ہائی کورٹ بار شفقت عباس تارڑ کی رائے شاہ خاور سے مختلف ہے انہوں نے بتایا کہ ’بحریہ ٹاؤن کے رہائشی جو بیس پچیس برسوں سے رہ رہے ہیں وہ ایک طویل مدتی معاہدہ ہے جو انہوں نے ادائیگی کر کے قانونی طور پر حاصل کیا ہے اس لیے میری سمجھ کے مطابق ان پر نیب کے ملک ریاض کے خلاف اس حکم نامے کے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔‘

وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ نیب، ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ملک ریاض کو مفرور قرار دے چکا ہے اور اس نے واضح کردیا ہے کہ وہ ان کے خلاف غیر قانونی ہاؤسنگ اسکیمز، زمینوں پر ناجائز قبضے سمیت دھوکا دہی، کرپشن اور فراڈ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب کی جانب سے پریس ریلیز جاری کیے جانے کے باوجود دبئی میں پروجیکٹس کا آغاز حیران کن ہے۔

دوسری جانب بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں پراپرٹی ڈیلر ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری مشتاق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ابھی مارکیٹ میں خاموشی ہے۔ ہم سے کسی سرمایہ کار نے رابطہ نہیں کیا کہ اثاثے منجمد ہو رہے ہیں تو اب کیا ہو گا، کیونکہ لوگوں کو علم ہے کہ یہ وقتی اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، پہلے بھی ایسے اعلان ہوئے ہیں، اس لیے جنہوں نے بحریہ ٹاؤن میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، وہ فی الحال مطمئن ہیں کہ ان کی سرمایہ کاری محفوظ ہے۔‘

بحریہ ٹاؤن میں مزید سرمایہ کاری کرنے والے منی لانڈرنگ کے زمرے میں آئیں گے؟

نیب سے جاری بیان کے مطابق: ’ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں زمینوں پر قبضے کیے۔ ملک ریاض نے سرکاری اور نجی اراضی پر ناجائز قبضہ کر کے بغیر اجازت نامے کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہوئے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا ہے۔ ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر پشاور اور جام شورو میں زمینوں پر قبضے کیے، انہوں نے بغیر نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ زمینوں پر ناجائز قبضے کر کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کی ہیں۔‘

نیب کے بیان میں کہا گیا کہ ’نہ صرف یہ بلکہ ملک ریاض اور ان کے ساتھی لوگوں سے دھوکا دہی کے ذریعے بھاری رقوم وصول کر رہے ہیں اور وہ اس وقت این سی اے کے مقدمے میں ایک عدالتی مفرور ہیں۔‘

 نیب نے بیان میں کہا کہ ’ملک ریاض نیب اور عدالت دونوں کو مطلوب ہیں، نیب بحریہ ٹاؤن کے پاکستان کے اندر بے شمار اثاثے ضبط کر چکا ہے اور اب بحریہ ٹاؤن کے مزید اثاثہ جات کو ضبط کرنے کے لیے بلا توقف قانونی کارروائی کرنے جا رہا ہے۔ملک ریاض اس وقت عدالتی مفرور کی حیثیت سے دبئی میں مقیم ہیں، بحریہ ٹاؤن کے مالک نے دبئی میں لگژری اپارٹمنٹ کی تعمیرات کے حوالے سے ایک نیا پروجیکٹ شروع کیا ہے، عوام الناس اس حوالے سے مذکورہ پروجیکٹ کے اندر کسی قسم کی سرمایہ کاری سے اپنے آپ کو دور رکھیں، سرمایہ کاری کرنے والے منی لانڈرنگ کے زمرے میں آئیں گے، سرمایہ کاری کرنے والوں کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

ایک گواہی کی ضد کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہونا پڑا

نیب کے اقدامات پر دبئی میں مقیم بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے اپنے ردعمل میں 190 ملین پاؤنڈز کیس کا حوالہ دیا کہ ’ایک گواہی کی ضد کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہونا پڑا۔ میرا کل بھی یہ فیصلہ تھا، آج بھی یہ فیصلہ ہے۔ چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو، ملک ریاض گواہی نہیں دے گا۔‘

ملک ریاض نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’پاکستان میں کاروبار کرنا آسان نہیں، سالوں کی بلیک میلنگ، جعلی مقدمے اور افسران کی لالچ کو عبور کیا، نیب کا آج کا بے سروپا پریس ریلیز دراصل بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے۔ میں ضبط کر رہا ہوں لیکن دل میں ایک طوفان لیے بیٹھا ہوں، اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست