برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے مارچ 1947 میں ہندوستان کے نامزد وائسرائے کو بلایا اور کہا: ’ہندوستانی رہنماؤں کو قائل کرو کہ وہ اکتوبر تک کسی سمجھوتے تک پہنچ جائیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر بھی ہم جون 1948 تک ہندوستان کو بغیر تصفیے کے چھوڑ دیں گے۔‘
اسی ہدایت کی روشنی میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے، جنہیں بطور نیوی افسر ’مردِ بحران‘ کہا جاتا تھا، 15 اگست تک ہی ہندوستان کے معاملات کو سمیٹنے کی کوششیں شروع کر دیں لیکن کسی ہندوستانی رہنما نے سوال نہیں اٹھایا کہ اس جلد بازی کے کیا نتائج ہوں گے۔
ہندوستان جیسے بڑے ملک کے مستقبل کا فیصلہ ایسا نہیں تھا کہ اس کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ہندوستان سے برطانوی انخلا پر The Transfer of Power نامی سرکاری دستاویزات 12 جلدوں میں موجود ہیں، جن میں تمام داخلی اور خارجی عوامل بیان کیے گئے ہیں۔
یہ سوال آج بھی موجود ہے کہ اگر برطانیہ مجبوری میں جلد از جلد انخلا چاہتا بھی تھا تو ہندوستانی قیادت نے ان خدشات کو کیوں اہمیت نہیں دی جو اس صورت میں درپیش ہو سکتے تھے؟
قائد اعظم اور نہرو دونوں نے ممکنہ فسادات کو کیوں اہم نہیں جانا؟
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ نہ تو نہرو، جو انڈیا کے پہلے وزیراعظم بنے اور نہ ہی قائداعظم، جو پاکستان کے گورنر جنرل بنے، ان حالات کا اندازہ لگا سکے جو اس جلد بازی کے نتیجے میں اگلے چند ہفتوں میں پیش آنے والے تھے۔
تاریخ انسانی کے بد ترین نسلی فسادات، جن کی وجہ سے 20 لاکھ لوگ مارے گئے اور ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی۔ ایک سال پہلے تک نہرو یہ قیاس کرتے تھے کہ جب انگریز چلا جائے گا تو یہاں کوئی نسلی تفرقہ نہیں رہے گا۔
قائد اعظم کے پیشِ نظر بھی صرف مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا قیام تھا۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان کے بغیر وہ ہندو اکثریتی ملک میں ایک اقلیت بن کر رہ جائیں گے ۔ دونوں میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ جلد بازی میں ہونے والی تقسیم کے نتیجے میں ایک ایسا المیہ جنم لے گا، جس کا خمیازہ صرف اس ایک نسل کو نہیں بلکہ آنے والی کئی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
انڈین سفارت کار اور مصنف کرشن رانا کی کتاب Churchill and India : Manipulation or Betrayal آکسفورڈ سے 2023 میں شائع ہوئی ہے۔ وہ اس میں لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ جو 1937 کے انتخابات میں بری طرح سے ہار گئی تھی اور مسلمانوں کے لیے مخصوص 485 سیٹوں میں سے وہ صرف 108 نشستیں ہی حاصل کر سکی تھی۔ جبکہ کانگریس نے 11 صوبوں میں سے آٹھ میں کامیابی حاصل کر لی تھی، مگر اس کے باوجود برطانوی اشرافیہ قائداعظم کو ہی مسلمانوں کا ترجمان سمجھتی تھی۔
لیکن 1945 کے انتخابی نتائج نے بالکل واضح کر دیا کہ مسلم لیگ مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے، لیکن کرشن رانا کو اس کے پیچھے بھی انگریز کا ہاتھ ہی نظر آتا ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ انٹیلی جنس بیورو ’پاکستان پراجیکٹ‘ کی مکمل حمایت کر رہا تھا۔
چرچل پاکستان کے سب سے بڑے حامی
انگریز جلد از جلد تقسیم چاہتا تھا۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس جلد بازی کے نتیجے میں کتنے لوگ مرتے ہیں اور کتنے بے گھر ہوتے ہیں۔ کرشن رانا لکھتے ہیں کہ ونسٹن چرچل جو دو بار برطانیہ کے وزیراعظم رہے، وہ قیامِ پاکستان کے سب سے بڑے حامی تھے۔
وہ 1896 میں اپنے نوجوانی کے ایام میں موجودہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں تین سال گزار چکے تھے، جہاں اینگلو افغان جنگوں میں فوجی افسر کے ساتھ ساتھ وہ ٹیلی گراف اخبار، لندن کے لیے جنگی نامہ نگار بھی تھے۔
بعد میں جب وہ سیاست میں آئے تو ان کا یہ موقف بن گیا تھا کہ ہندوستان کی مغربی سرحدیں ہمیشہ خطرے میں رہیں گی۔ ہندو اور مسلمانوں کی آبادی میں اگرچہ بڑا فرق ہے تاہم ہندوستان کی فوج میں مسلمان اپنے تناسب سے کہیں زیادہ موجود ہیں، جو ان کی عسکری صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تب ہندوستان کی فوج میں مسلمانوں کا تناسب 35 فیصد جبکہ ہندوؤں کا 41 فیصد تھا۔ وہ ہندوؤں میں ذات پات کی تقسیم کو بھی برا سمجھتے تھے اور گاندھی کے تو سخت ناقد تھے۔ اس لیے وہ قائد اعظم کے بڑے حمایتی بن گئے، جو پہلے ہی ہندو اکثریت کے خلاف مسلمانوں کے حقوق کے ایک بڑے رہنما بن کر ابھر رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد میں جب ایٹلی وزیراعظم بنے تو امریکہ میں ٹرومین صدر بن چکے تھے۔ امریکی قیادت کے ذہن میں چرچل کی یہ بات سما چکی تھی کہ روس اور ہندوستان کے درمیان ایک ’بفر سٹیٹ‘ کا قیام ناگزیر ہے کیونکہ امریکہ پہلے ہی ہندوستانی رہنماؤں کے سوشلسٹ خیالات سے خائف تھا اور ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند تھا۔
حتیٰ کہ جب بھی ٹرومین اور ایٹلی کی ملاقات ہوتی تو اہم ایجنڈا پوائنٹ ہندوستان کے مستقبل کا موضوع تھا، کیونکہ اس کے ایک طرف روس تھا تو دوسری جانب چین۔ یوں برطانیہ اور امریکہ دونوں ہی ہندوستان میں تقسیم کے حق میں تھے۔
کابینہ مشن کی ناکامی نے برطانیہ کو بند گلی میں دھکیل دیا
برطانوی وزیراعظم ایٹلی نے 1946 میں ہندوستان میں ایک کابینہ مشن بھیجا، جس کا مقصد ہندوستانی لیڈروں کو ایک درمیانی راستہ دکھانا تھا، جس کے تحت انہیں ایک 10 سالہ عبوری فیڈریشن کے لیے راضی کرنا تھا تاکہ ایک طرف انہیں حکومت چلانے کا تجربہ حاصل ہو سکے اور اس کے بعد وہ کسی فیصلے پر پہنچ سکیں کہ انہیں ایک ساتھ رہنا ہے یا الگ ہونا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے یہ منصوبہ مشروط طور پر قبول کر لیا مگر کانگریس نے اسے مسترد کر دیا، جس کے بعد ہندوستان کو متحد رکھنے کا آپشن ختم ہو چکا تھا۔
اس منصوبے سے پہلے 1945 کے انتخابات میں مسلم اکثریتی حلقوں میں مسلم لیگ اور عام نشستوں پر کانگریس کو واضح مینڈیٹ مل چکا تھا، اس لیے ایک فضا بن چکی تھی کہ دونوں قوموں کے راستے اب الگ الگ ہیں۔
کابینہ مشن کی ناکامی پر مسلم لیگ نے بنگال میں یوم راست اقدام منانے کا اعلان کر دیا، جس کے نتیجے میں کلکتہ میں بدترین فسادات پھوٹ پڑے، جن میں تین سے چار ہزار افراد مارے گئے۔ ان فسادات سے ایک بات طے ہو گئی کہ مسلمان اور ہندو اب ایک ساتھ نہیں رہیں گے۔
کابینہ مشن کی ناکامی پر وزیراعظم ایٹلی نے لارڈ ویول کو واپس بلا کر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو وائسرائے بنا دیا، جن کے پاس جون 1948 تک کا وقت تھا مگر انہوں نے 10 ماہ پہلے ہی یہ کام کر دکھایا۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو اتنی جلدی کیا تھی؟
لارڈ ماؤنٹ بیٹن جاپان کے خلاف لڑنے والی اتحادی بحری فوج کے سپریم کمانڈر تھے۔
جب اگست 1945 میں امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم پھینکے تو جاپان کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہا اور انہوں نے 15 اگست 1945 کو ماؤنٹ بیٹن کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
یہی وجہ ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو اس دن سے والہانہ لگاؤ تھا کیوں وہ اسے اپنی عظیم فتح کی یادگار سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہندوستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اس کے لیے یہی تاریخ مقرر کی۔
ماؤنٹ بیٹن فروری 1947 کو ہندوستان پہنچے تھے۔ ان کے سامنے ہندوستانیوں کو اقتدار سونپنے کے لیے جون 1948 تک کا وقت تھا مگر بجائے یہ کہ 32 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک کی انتہائی پیچیدہ تقسیم کے لیے وہ مزید وقت مانگتے، انہوں نے الٹا جون 1947 میں ایک پریس کانفرنس میں انڈیا کو 15 اگست 1947 کو تقسیم کرنے کا حیرت انگیز فیصلہ کر لیا۔
اس طرح انتظامیہ کو اتنے وسیع و عریض اور گنجان آباد ملک کو تقسیم کرنے کے لیے صرف 73 دن کا مختصر وقت ملا۔ جتنے وقت میں ایک گھر میں دو بھائیوں کی جائیداد کی تقسیم مشکل سے ہوتی ہے، اتنی دیر میں ماؤنٹ بیٹن نے پورے برصغیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا تہیہ کر ڈالا۔
اس کی متعدد وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ماؤنٹ بیٹن جلدی جلدی کام نمٹا کر انگلستان لوٹنا چاہتے تھے تاکہ وہ وہاں بحریہ میں اپنا کیریئر دوبارہ سے شروع کر سکیں۔ تقسیم میں جتنی دیر ہوتی، انہیں اتنا ہی زیادہ اس ملک میں ٹھہرنا پڑتا۔
مزید یہ کہ ماؤنٹ بیٹن کے ہندوستان آتے ہی فسادات پھوٹ پڑے۔ پٹہ میں 70 لوگ مارے گئے، ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ امرتسر میں 160 اموات، مردان میں فسادات ہوئے۔ ملک کے طول و عرض میں تشدد پھوٹ پڑا۔
ادھر برطانیہ خود دوسری عالمی جنگ کے زخموں سے چور تھا، اس کے پاس امن برقرار رکھنے کے لیے نہ تو درکار تعداد میں فوجی تھے اور نہ ہی سیاسی عزم کہ وہ حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا۔ اس لیے بھی ماؤنٹ بیٹن نے یہی مناسب سمجھا کہ وہ جلد از جلد بٹوارہ کر ڈالیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قدر عجلت اور افراتفری کے عالم میں اتنے بڑے ملک کی تقسیم نے وہ داغ چھوڑے جو آج تک مندمل نہیں ہو سکے اور یہ خطہ مسلسل عدمِ استحکام کا شکار ہے۔