پابندیوں کے سائے میں ایک افغان خاتون کی پکنک کی داستان

 شمالی افغانستان کی سرسبز پہاڑیوں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ دن گزارنے جیسی زندگی کی سادہ خوشیاں اب اتنی آسان نہیں رہیں، خصوصاً خواتین کے لیے۔

برقع پوش افغان خواتین 15 جولائی 2024 کو صوبہ بدخشاں کے ضلع فیض آباد میں ایک سڑک سے گزر رہی ہیں (عمر ابرار / اے ایف پی)

پکنک پر جانا اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا، افغانستان کی قدرتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونا، افغان خاندانوں کے لیے ایک پسندیدہ مشغلہ رہا ہے، خاص طور پر موسم بہار میں۔

تاہم افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک ویب سائٹ (اے اے این) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جب سے افغان طالبان نے خواتین اور لڑکیوں پر کئی پابندیاں عائد کی ہیں، ملک میں عوامی پارک زیادہ تر ان کے لیے نو گو ایریا بن گئے ہیں۔

اے اے این نے ایک افغان لڑکی سے بات کی، جن کا کہنا تھا کہ شمالی افغانستان کی سرسبز پہاڑیوں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ دن گزارنے جیسی زندگی کی سادہ خوشیاں اب اتنی آسان نہیں رہی ہیں۔ یہ کہانی ان ہی کی زبانی تحریر کی جا رہی ہے:

’ہم سال میں کئی بار گھر سے باہر جاتے تھے، خاص طور پر نوروز کے دوران۔ ان دنوں ہمارے خاندان کی خواتین اکیلے پارکوں میں جاتی تھیں لیکن آج کل لوگ طالبان کی طرف سے روکے جانے اور پوچھ گچھ کی وجہ سے پریشان ہیں، اس لیے ہم نے جانا ہی چھوڑ دیا، لیکن اس سال، دو سالوں میں پہلی بار ہم پکنک منانے گئے۔

’میری عمر 18 سال ہے اور میں نے ابھی 11 ویں کلاس مکمل کی تھی کہ طالبان نے لڑکیوں کا ہائی سکول جانا بند کر دیا۔ میں ایک نجی انسٹی ٹیوٹ میں انگریزی پڑھتی تھی، لیکن وہ کورسز بھی اب لڑکیوں کے لیے بند ہوگئے ہیں۔

’امارت (طالبان) کے اقتدار میں آنے سے پہلے میں اپنے گھر کے قریب ایک انسٹی ٹیوٹ میں پبلک سپیکنگ کا کورس کر رہی تھی لیکن امارت نے اس ادارے کو بند کر دیا، لہٰذا میں نے ایک اور ادارے میں داخلہ لیا، لیکن کچھ مہینوں کے بعد وہ بھی بند ہو گیا۔

’میں ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ میرے تین بھائی اور پانچ بہنیں ہیں۔ میں مزار شریف میں اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہوں۔ میری بھابی اور میری بھتیجی بھی ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ جب میرے والد کی نوکری چلی گئی تو انہوں نے ہمارے گھر کے باہر کھانے پینے کی دکان لگا دی۔

’میرا سب سے بڑا بھائی موٹر سائیکل مکینک ہے اور میرے خاندان میں وہ واحد شخص ہے جس کے پاس کاروبار ہے، لیکن وہ ہمارے ساتھ نہیں رہتا۔

’میں اس سال باہر جانے کے بارے میں واقعی پرجوش تھی۔ میرے خاندان کو پکنک پر گئے ہوئے کئی سال ہو چکے تھے اور میں معمول کی تبدیلی اور کچھ تازہ ہوا کو ترس رہی تھی۔‘

سیر کا موقع

’طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہم صرف دو مرتبہ سیر کے لیے گئے۔ آخری بار تنگ مرمل میں پکنک کا اہتمام کیا گیا، جو مزار شریف کے جنوب میں صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک سرسبز و شاداب وادی ہے۔ ہم تین دیگر خاندانوں کے ساتھ گئے، ہر ایک کے ساتھ کم از کم تین مرد تھے۔

’لیکن ہم وہاں گھوم پھر نہیں سکتے تھے کیوں کہ وہاں مردوں کے گروپ تھے جو پکنک کے دوران کباب بنا رہے تھے اور تاش کھیل رہے تھے۔ علاقے میں گشت کرنے والے مسلح طالبان نے انہیں کچھ نہیں کہا، حالانکہ تاش کھیلنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم نے اپنا کھانا کھانے کے لیے ان سے بہت دور ایک جگہ کا انتخاب کیا اور پھر جلدی سے اس علاقے کو چھوڑ دیا۔

’گذشتہ موسم سرما کے دوران میں اپنے والد کو سجدہ بی ڈار پکنک پر جانے کا کہتی رہی تھی، لیکن ہم نہیں جا سکے کیونکہ رمضان تھا۔ موسم بہار میں، میری پھوپھی نے اعلان کیا کہ وہ اور ان کی فیملی ایک دن کی سیر پر جانے کا ارادہ رکھتی ہیں کیونکہ اب سب کچھ سرسبز ہو گیا ہے اور موسم اچھا ہے۔

’میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا وہ ہمیں ان کے ساتھ جانے کی اجازت دیں گے، لیکن میرے والد کو نہیں لگتا تھا کہ صورت حال اچھی ہے اور وہ کسی پریشانی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے۔‘

سیر پر جانے کی اجازت

’یہ صرف میرے ہی نہیں بلکہ زیادہ تر خاندانوں کے حالات ہیں۔ لوگ کوئی پریشانی نہیں چاہتے اور باہر جانے سے ہچکچاتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ دوسرے خاندان جانے کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں لیکن میرے خاندان میں، میرے والد ہیں جو یہ فیصلے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جا سکتے کیونکہ وہ ہمارے گھر کی تزئین و آرائش میں مصروف تھے لیکن یہ صرف ایک بہانہ تھا۔ میرے والد کبھی بھی پکنک منانے کے شوقین نہیں تھے۔ رحقیقت، مجھے ایک بار بھی یاد نہیں ہے جب وہ ہمارے ساتھ کسی پکنک میں شامل ہوئے ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تانگ اولیہ کے دشت شادیان کی سیر کے لیے انتظامات میں اس خاندان کو تقریباً تین ہفتے لگے۔ یہ مزار شریف سے صرف ایک گھنٹے کی دوری پر ایک دلکش پکنک سپاٹ ہے اور ایک اچھی سڑک کے ساتھ آسانی سے قابل رسائی ہے۔

’میری خالہ اور گھر کے دیگر افراد میرے والد کو فون کرتے رہے، اس امید میں کہ ان کا فیصلہ بدل جائے گا، لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔

’میں بہت پریشان تھی۔ جب بھی کوئی باہر جانے کا ذکر کرتا تھا تو میں روتی تھی اور اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیتی تھی۔ آخر کار وہ راضی ہو گئے۔

’باہر جانے کے دن میں تیاری کے لیے جلدی اٹھ گئی۔ پکنک کے لیے کھانا پکانے میں اپنی بھابھی کی مدد کرنے سے پہلے میں نے نماز ادا کی، لیکن جب میں باورچی خانے میں پہنچی تو وہ بے چین دکھائی دے رہی تھیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے والد نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے اور ہمیں جانے کی اجازت نہیں دی۔

’میں نے اپنی خالہ، اپنی بڑی بہن اور دو کزنز کو فون کیا تاکہ انہیں والد کے فیصلے کے بارے میں بتا سکوں۔ پھر میری خالہ نے میرے بھائی کو بلایا اور اس سے کہا کہ وہ والد کے ساتھ بات کرے، لیکن میرے والد اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ چونکہ میرے والد ہمارے خاندان میں سب سے بڑے ہیں، کوئی بھی ان کے فیصلے کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ ساری صبح میرے والد کو فون کالز آتی رہیں اور ان کے اور میرے بڑے بھائی کے درمیان بات چیت ہوتی رہی۔ آخر کار تقریباً 11 بجے میری بھابھی نے مجھے پکنک کے لیے جانے کے لیے تیار ہونے کا کہا۔ وہ خوش نہیں تھے لیکن میرے والد نے آخر کار ہمیں جانے کی اجازت دے دی۔

’کچھ پکانے کے لیے بہت دیر ہو چکی تھی، اس لیے ہم نے اپنی خالہ سے کہا کہ ہم ان کے خریدے ہوئے کھانے اور مشروبات کا آدھا حصہ ادا کریں گے۔ ہم نے انار کے جوس کی چار بڑی بوتلیں اور کچھ روٹیاں بھی خرید لیں۔

’ایسی بہت سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے لوگ سیر کے لیے نہیں جاتے۔ ہمارے بہت سے پڑوسیوں کی طرح بعض لوگ ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ میرے جیسے دوسرے گھرانے قدامت پسند ہیں اور ان کے والد سخت گیر ہیں۔ پھر خوش قسمت کھلے ذہن والے خاندان ہیں جو باقاعدگی سے جاتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے والد اس بار جانے کے اتنے مخالف کیوں تھے۔ انہوں نے اس سے پہلے ہمیں بڑے گروپوں میں جانے کی اجازت دی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ گھر کی تزئین و آرائش میں مصروف تھے یا اخراجات کے بارے میں فکر مند تھے یا طالبان سے متعلق ممکنہ خطرات کے بارے میں فکرمند تھے۔‘

ہم پکنک پر جا رہے ہیں

’ہم ان دو بڑی گاڑیوں میں سے ایک میں گئے جو میرے کزن کے پاس ہیں کیونکہ ہمارا گروپ بڑا تھا اور ہمارے کچھ رشتہ داروں کے پاس گاڑی نہیں تھی۔ اس طرح ہم ایک ہی گاڑی میں ایک ساتھ سفر کرسکتے ہیں اور پیٹرول کا خرچہ تقسیم کرسکتے ہیں۔ ہم نے ایک قالین بچھایا اور کھلی ہوا میں ایک ساتھ بیٹھ گئے اور تازہ ہوا اور ہرے بھرے مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

’کچھ رشتہ دار ایک دوسری گاڑی میں ہم سے آگے نکل گئے۔ دوسری گاڑی میں میری خالہ اور ان کے تین بیٹے، اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ سوار ہو گئے۔ میری والدہ کابل میں تھیں اور ہمارے ساتھ نہیں جا سکیں۔ میری خالہ کے داماد اور ان کے کچھ رشتہ دار بھی ساتھ آئے۔ مجموعی طور پر ہم تقریباً 40 سے 50 لوگ تھے۔

’جیسا کہ ہمیں توقع تھی، ہم کئی چیک پوسٹوں سے گزرے۔ یہاں تک کہ دشت شادیان کے داخلی دروازے پر بھی طالبان گشت کر رہے تھے، لیکن انہوں نے زیادہ تر ان گاڑیوں کی تلاشی لی جن میں اکثر مرد مسافر تھے۔ وہ بہت سی خواتین مسافروں والی گاڑیوں کے بارے میں زیادہ متجسس نہیں تھے، لہٰذا انہوں نے ہمیں نہ روکا اور نہ ہی کوئی سوال پوچھا۔

’جب ہم شہر سے نکل آئے تو ہم نے جوش میں تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ یہ ایک خوشگوار سفر تھا۔ کوئی موسیقی نہیں تھی، لیکن ہمارے تالیاں بجانے کی آواز تھی اور ہمارے چہروں پر ہوا تھی جس کی وجہ سے ہمارے حجاب ہلکے سے ڈھیلے ہوگئے تھے۔ جب بھی ہم کسی چوکی کے قریب پہنچتے، ہمارے کزن ہمیں اپنے حجاب ٹھیک کرنے کی یاد دہانی کرواتیں۔ ہم تالیاں بجانا بند کر دیتے اور اپنے حجاب کو ٹھیک کر لیتے، لیکن جیسے ہی ہم گزر جاتے، ہم دوبارہ سے تالیاں بجانا شروع کر دیتے۔

’دراصل ہم نے کم آواز میں موسیقی بجانے کے لیے کچھ ساتھ لانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن خاندان کے مردوں نے اس خیال کو ویٹو کر دیا۔ خواتین موسیقی، تالیاں اور لطف اندوز ہونا پسند کرتی ہیں لیکن مرد انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے، لہذا ہم نے تالیوں اور دلچسپ گفتگو سے اپنے آپ کو مصروف رکھا۔

دن کا بہترین استعمال

’جب ہم دشت شادیان پہنچے تو دوپہر کے ایک بج چکے تھے۔ علاقہ لوگوں سے اٹا ہوا تھا۔ وہاں بہت سے اکیلے مرد اور کچھ خاندان بھی تھے۔ وہاں لڑکے دیارا (ٹمبورین کی ایک قسم) فروخت کر رہے تھے۔ میں نے صرف ایک لڑکے کو دیارا خریدتے ہوئے دیکھا۔ زیادہ تر لوگوں دیکھ رہے تھے لیکن خریدا نہیں۔ وہ شاید طالبان کے ساتھ پریشانی میں پڑنے سے بہت ڈرتے تھے کیونکہ موسیقی کی اجازت نہیں ہے۔

’ہمیں بھیڑ سے دور ایک پرسکون جگہ مل گئی تاکہ ہم اپنے دری لگا سکیں اور اپنی بھابھی کے لیے کھانا پکانے کے لیے آگ کا بندوبست کرسکیں، حالانکہ دیر ہو رہی تھی۔ کچھ لڑکیاں جو دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف نہیں تھیں، انہوں نے قریبی میدان میں چہل قدمی کا فیصلہ کیا، جہاں ہم نے بچوں کو پتنگیں اڑاتے، فٹ بال کھیلتے اور انرجی ڈرنکس اور کھلونے فروخت کرتے ہوئے دیکھا۔

’ایک آدمی کرائے کے لیے گھوڑے لیے کھڑا تھا اور ہم نے دیکھا کہ کچھ لڑکے گر کر زخمی ہو گئے تھے۔ وہاں خوبصورت ملبوسات میں اور میک اپ میں خواتین موجود تھیں۔ وہ تصویر لینے کے لیے مختصر طور پر اپنے حجاب اتاردیتی تھیں اور پھر دوبارہ پہن لیتی تھیں۔ میں نے عبایا پہنا ہوا تھا۔

’ہر خاندان پکنک کے لیے پہلے سے تیار کیا ہوا کھانا لایا تھا – منتو (ڈمپلنگ)، کابلی پلاؤ، قورمہ، سبزیاں، پھل اور مشروبات۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم نے تصویریں کھینچیں اور چہل قدمی کے لیے چلے گئے، جس کی نگرانی ہمارے گروپ کے کچھ مرد کر رہے تھے۔

’پچھلی بار جب ہم سیر پر گئے تھے، تو ہم ایک دلکش مقام پر گئے تھے جو سرخ پھولوں سے بھری تھی۔ اس بار ہم نے دشت شادیاں آنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ یہ شہر کے قریب ہے اور یہاں بہتر سکیورٹی ہے، لیکن ہمیں زمین میں صرف چند میٹر کے فاصلے پر کھڈوں سے حیرت ہوئی۔

’اس کے علاوہ وہاں صرف چند درخت تھے اور پہاڑی کی چوٹی کے علاوہ ہریالی بہت کم تھی۔ باغات اور مکانات تھے لیکن وہ نجی ملکیت تھے اور سیاحوں کے لیے ممنوع تھے۔ بدقسمتی سے، یہ علاقہ خالی ڈبوں، دسترخوانوں اور بوتلوں سے بھرا ہوا تھا، جو پچھلی پکنکوں کی باقیات تھیں اور جنہیں لوگ جاتے ہوئے وہاں چھوڑ گئے تھے۔

مایوس کن سفر سے نہ کرنا بہتر

’سیر سے میرا ذہن تروتازہ ہو گیا۔ رشتہ داروں سے ملنا اور لوگوں کو دیکھنا بہت اچھا تھا کہ دوسرے لوگ عوامی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح بات چیت کرتے ہیں۔ میں نے کچھ دوسری لڑکیوں کے لباس کی تعریف کی اور اپنے لیے اسی طرح کے کپڑے بنوانے کا ارادہ کیا۔

لیکن میں نے اس سیر سے اتنا لطف نہیں اٹھایا، جتنا ہم نے پچھلے سالوں میں اٹھایا تھا۔

’ماضی میں میری بہن، جو کابل میں کام کرتی ہے، میری والدہ اور میرے تمام بہن بھائی ساتھ ہوتے تھے۔ یہ واقعی خاندانی روایت تھی اور ہمیشہ بہت مزہ آتا تھا۔ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ اس بار صرف میں اور میرے خاندان کے تین قریبی افراد تھے، لہذا تجربہ اتنا اچھا نہیں تھا۔

’شدید گرمی تھی اور پکنک کا علاقہ اتنا خوشگوار نہیں تھا۔ ہماری کچھ خواتین رشتہ دار ہیٹ سٹروک سے بیمار پڑ گئیں کیونکہ ہم اس قسم کے موسم کے لیے مناسب ہلکے کپڑے نہیں پہن سکتے تھے۔ ہمیں لمبے سیاہ عبایا پہننے پڑتے تھے اور سروں پر حجاب باندھنے پڑتے تھے۔

’خواتین زیادہ گھوم پھر بھی نہیں سکتی تھیں۔ اگر ہم کہیں جانا چاہتے تھے تو ہمیں اپنے گروپ کے مردوں میں سے کسی ایک کو کہنا پڑتا تھا۔ ان میں سے کچھ لوگ ادھر ادھر گھومتے پھرتے پہاڑیوں کی سیر کرتے، فٹ بال اور کرکٹ کھیلتے اور پتنگیں اڑاتے، لیکن وہ بھی بے چینی محسوس کر رہے تھے کیوں کہ پولیس گھوم رہی تھی اور بھیڑ کا جائزہ لے رہی تھی۔ ہم نے کچھ گولیوں کی آواز سنی – ہم یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ یہ کہاں سے آ رہی تھی – لیکن اس آواز نے لوگوں کو خوفزدہ کر دیا۔

’ماضی میں جب ہم باہر جاتے تھے تو فیملی کے تمام لڑکے اور لڑکیاں فٹ بال کھیل سکتے تھے اور دیگر مشغلوں میں حصہ لے سکتے تھے۔ لڑکیوں کو اجازت تھی کہ اگر وہ چاہیں تو پتنگیں اڑا سکتی ہیں یا صرف بیٹھ کر بات کر سکتی ہیں یا تصویریں کھینچ سکتی ہیں۔

’فیملی کے سبھی لڑکوں کو ادھر ادھر بھاگتے اور تفریح کرتے ہوئے دیکھنا مایوس کن تھا۔ ہم ان کے کھیلوں میں شامل نہیں ہو پا رہے تھے۔ میں نے اپنے گروپ کی لڑکیوں سے کہا کہ وہ میرے ساتھ فٹ بال کھیلیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ پریشانی میں پڑنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتیں۔

’ماضی میں خواتین محرم کے بغیر باہر جانے کے لیے آزاد تھیں لیکن آج کل شہر کے پارکوں میں بھی قوانین موجود ہیں کہ ہم کب اور کیسے جا سکتے ہیں۔ ہم صرف ہفتے کے مخصوص دنوں میں جا سکتے ہیں اور ہمارے ساتھ ایک محرم ہونا ضروری ہے جو باہر انتظار کرتا ہے۔ ہم اب روضہ شریف (مزار شریف) پر بالکل بھی نہیں جا سکتے۔

’اُس وقت میری فیملی اس بات پر زیادہ دھیان نہیں دیتی تھی کہ میں اور میری بہنیں کیا پہنتی ہیں یا ہم میک اپ کرتے ہیں یا ہمارے کچھ بال دکھائی دے رہے ہیں، لیکن اب وہ ہمیں نصیحت کرتے ہیں، ہمیں اپنے سکارف کو طریقے سے پہننے، میک اپ سے بچنے اور عبایا پہننے کے لیے کہتے ہیں۔

’جب ہم مزار شریف کی طرف واپس جانے کے لیے گاڑی میں سوار ہوئے تو میں نے اس دن کو ممکن بنانے کے لیے سب کو درپیش تمام مشکلات کے بارے میں سوچا۔ یہ وہ عظیم مہم جوئی نہیں تھی جس کا میں نے تصور کیا تھا۔ اس کے باوجود مایوس کن آؤٹنگ بالکل بھی باہر نہ جانے سے بہتر ہے۔‘

بشکریہ: افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی