ہدایت کار اور پروڈیوسر مہرین جبار کی ویب سیریز ’فرار‘ سٹریمنگ پلیٹ فارم ذی فائیو پر آنے کے لیے تیار ہے، جو خود انہیں ذاتی طور پر پسند ہے اور وہ اس کے حوالے سے پُر امید ہیں۔
پاکستانی شوبز میں تقریباً تین دہائیوں سے کام کے دوران مہرین جبار نے کئی مشہور ڈرامے تخلیق کیے، متعدد مقبول فلمیں بنائیں اور مشہور ویب سیریز بھی پیش کی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اپنی ویب سیریز ’فرار‘ کے بارے میں مہرین نے بتایا کہ اس کا خیال 1997 میں بنائی گئی ایک ٹیلی فلم ’فرار‘ سے ادھار لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سیریز خود انہیں ذاتی طور پر پسند ہے اور امید ہے کہ ذی فائیو اسے جلد اس سال نشر کر دے گا۔
چھ اقساط پر مشتمل یہ سیریز اصل میں تین لڑکیوں کی کہانی ہے۔
بقول مہرین: ’فرار کا ایک کردار ثروت گیلانی ہیں، جو بیوہ ہیں اور ایک سیلون چلاتی ہیں۔ ایک مریم سلیم ہیں جو سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں، پھر ماہا حسن ہیں، جو ایتھیلیٹ ہیں اور چیمپیئن شپ کی تیاری کر رہی ہیں۔ ان تینوں کی اپنی کہانیاں ہیں کہ وہ الگ الگ کہانیوں میں کیسے ایک دوسرے کے قریب ہیں اور کیسے کراچی جیسے شہر میں رہتی ہیں۔‘
حال ہی میں مہرین جبار کا سماجی مسائل پر مبنی ڈراما ’نادان‘ پیش کیا گیا جسے ناقدین نے بہت پسند کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’نادان‘ تین ڈراموں کی ایک سیریز ہے جو سلطانہ صدیقی کی اختراع ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں جاری حالیہ دور کے مسائل اجاگر کیے جائیں۔
بقول مہرین ’نادان‘ میں جعلی پیر اور ہجوم کی ذہنیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اگرچہ ایسے ڈرامے دیکھنے والوں کی تعداد ساس بہو کے سیریلز دیکھنے والوں سے کم ہوتی ہے لیکن اگر 10، 20 لاکھ افراد نے بھی اسے دیکھ لیا تو کافی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حالیہ ڈراموں کی کامیابی دیکھی جائے تو ’کبھی میں کبھی تم‘ یا ’نور جہاں‘ جیسے ڈراموں کو کروڑوں افراد نے دیکھا، لیکن سماجی مسائل پر ڈرامے دیکھنے والے لاکھوں میں ہیں اور یہ ساری دنیا میں ہوتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سماجی مسائل پر ڈرامے نہیں بننے چاہییں۔ ان کے دیکھنے والے بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔
مہرین کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں پاکستانی ڈرامے پوری دنیا اور خاص کر انڈیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے مقبول ہوئے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ 90 فیصد ڈرامے گھریلو مسائل، خاندانی جھگڑوں یا ساس بہو والے ہوتے ہیں اور چینلز ریٹنگ پر چلتے ہیں، کیونکہ آخر کار یہ ایک کاروبار ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اچھی بات یہ ہے کہ کچھ چینلز کم کم ہی سہی، مختلف موضوعات جیسے ایکشن تھرلر اور سماجی مسائل پر ڈرامے بنا رہے ہیں اور امید ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔‘
طویل اقساط پر مشتمل ڈراموں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ 30 سے 35 اقساط کا ڈراما منافع دیتا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ کچھ کہانیاں ہوتی ہی 13 سے 14 اقساط کی ہے، لیکن مالکان کا کہنا ہے کہ لوگ کم اقساط سے اس طرح ’اٹیچ‘ نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے معاملات کی وجہ سے طویل اقساط رکھی جاتی ہیں۔
مہرین کا کہنا تھا کہ یہ بھی پیسے ہی کا مسئلہ ہے کیونکہ سیریز زیادہ کمائی کرکے نہیں دے رہیں اور یہی معاملہ ٹیلی فلم کے ساتھ بھی ہوا ہے، وہ بھی بہت کم ہی بن رہی ہیں۔
پاکستان کے ویران سینیما گھروں کے بارے ان کی رائے ہے کہ سینیما جانا ایک عادت ہے، اتنی فلمیں بن ہی نہیں رہیں کہ لوگ انہیں دیکھنے جائیں اور پھر بنانے والوں کے لیے مسئلہ ہے کہ دکھائیں کہاں جبکہ سینیما بند ہو رہے ہیں اور جو ہیں وہاں بھی ٹکٹ بہت مہنگے ہیں۔ اب یہ سارے مسائل ایک ساتھ ہیں جنہیں حل کرنا ہوگا۔
مہرین جبار کے خیال میں سینسر بورڈ کے اپنے مسائل ہیں لیکن سینیما کو نقصان سینسر بورڈ نے نہیں پہنچایا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ایرانی سینیما سے بہترین فلمیں آئی ہیں۔ اگرچہ وہاں کی حکومت سینسر پالیسی کو سخت رکھتی ہے، لیکن فلمیں بنانے کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔
پاکستانی ڈراموں میں خواتین کے روایتی کردار پر جو سوال اٹھ رہے ہیں، اس حوالے سے مہرین جبار نے کہا کہ ’یہ مصنفین کی کاہلی ہے کہ وہ کردار کی پرت نہیں بناتے۔ وہ اسے بالکل سیاہ یا سفید کر دیتے ہیں، شاید وجہ یہ ہو کہ اس سے دیکھنے والوں کو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ کردار کیسا ہے‘، مگر وہ اسے کاہلی سمجھتی ہیں۔
انہوں نے سٹریمنگ پلیٹ فارمز کے حوالے سے پاکستانیوں کے رجحان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستانی عوام او ٹی ٹی کو سبسکرائب نہیں کرتے، جب تک وہ پیسے نہیں دیں گے، ڈیجیٹل سٹریمنگ سروس کیسے چلے گی؟‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’ہمارے یہاں لوگ پاس ورڈ بانٹ لیتے ہیں، ٹورنٹ سے ڈاؤن لوڈ کر لیتے ہیں، اس لیے اس جانب نہیں جا سکتے، پاکستان میں جو ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہیں، وہ بھی بس ایسے ہی چل رہے ہیں۔‘
پاکستانی ویب سیریز کی دیگر زبانوں میں ڈبنگ نہ ہونا ایک الگ مسئلہ ہے۔ مہرین جبار کے مطابق پاکستان میں اتنی ویب سیریز بنائی ہی نہیں گئیں، تاہم ڈرامے دوسری زبانوں میں ضرور ڈب کیے گیے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ جب نیٹ فلکس پر مومنہ درید کا ’جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو‘ آئے گا اور وہ اگر سراہا جائے گا تو سب ہی کے لیے دروازے کھلیں گے اور ہم آگے بڑھیں گے۔‘