سپریم کورٹ کے سینیئر ترین ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے مطالبہ کیا ہے کہ 26ویں ترمیم کا معدمہ اسی ہفتے فل کورٹ بینچ میں لگایا جائے۔ اس مطالبے سے چند سنجیدہ سوالات نے جنم لیا ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کیا آئینی ترمیم کو کسی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور کیا کوئی عدالت ایسی کسی درخواست کی سماعت کا اختیار رکھتی ہے؟
اس کا جواب بہت واضح اور دوٹوک ہے کہ آئینی ترمیم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
آئین کے باب 11 میں، آرٹیکل 239 کی ذیلی دفعہ پانچ میں لکھا ہے: ’دستور میں کسی بھی ترمیم پر، کسی بھی عدالت میں، کسی بھی بنیاد پر، چاہے وہ کسی ہی وجہ کیوں نہ ہو، کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا۔‘
یہ ممانعت 26 ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل نہیں کی گئی، یہ وہاں بہت پہلے سے موجود ہے۔ آئین میں اس معاملے پر ایک غیر معمولی اہتمام کیا گیا ہے۔
چنانچہ ذیلی دفعہ پانچ میں لکھا ہے: ’کسی شک کے ازالے کے لیے، بذریعہ ہذا، قرار دیا جاتا ہے کہ دستور کے احکام میں سے کسی میں ترمیم کرنے کے مجلس شوریٰ (پارلیمان) کے اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔‘
کیا آئین میں اس وضاحت کے بعد بھی کہیں کوئی ابہام موجود ہونا چاہیے؟ (25ویں آئینی ترمیم کے موقعے پر چیف جسٹس ناصر الملک صاحب کا بھی یہی موقف تھا کہ آئینی ترمیم چیلنج نہیں ہو سکتی)۔
ایک رائے یہ ہے کہ اگر پارلیمان آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف آئین سازی کرے تو سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ یہ اس کا بنیادی ڈھانچہ ہے؟ کیا آئین نے کہیں وضاحت کی ہے کہ فلاں فلاں چیز کی نوعیت حتمی ہے؟
بنگلہ دیش کے آئین میں آرٹیکل سات بی میں بتایا گیا ہے کہ یہ چیزیں آئین کا بنیادی ڈھانچہ تصور ہوں گی، ایسی کوئی چیز کیا پاکستان کے آئین میں لکھی گئی ہے؟
ایک چیز جو پارلیمان میں بیٹھے عوام کے نمائندوں نے آئین میں نہیں لکھی، کیا عدالت تشریح کے نام پر آئین میں وہ چیز ڈال سکتی ہے؟ یا اگر پارلیمان نے کچھ لکھا ہے تو کیا عدالت اسے آئین سے نکال سکتی ہے؟ کیا عدالت بھی جزوی طور پر آئین ساز ہے؟
بنیادی ڈھانچہ نامی کوئی چیز اگر ہے تو کہاں سے آئی؟ عوام کے نمائندوں نے دی۔ اب عوام ہی کے نمائندے اگر آئین میں کوئی نئی بات شامل کرنا چاہیں تو ان پر کس اصول کے تحت پابندی لگائی جا سکتی ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہو سکتا ہے 1973 میں عوام نے اپنے نمائندوں کے ذریعے ایک چیز طے کی ہو، اب کیا عوام کا یہ حق ساقط ہو جاتا ہے کہ وہ اس چیز کو بدل نہیں سکتے؟
کیا آئین میں کہیں لکھا ہے کہ پارلیمان کی آئین سازی کا حق عدلیہ کی اجازت سے مشروط ہو گا؟ کیا آئین میں ’آئین کے محافظ‘ کا کوئی ایسا تصور پایا جاتا ہے؟
قانون سازی کی حد تک تو یہ اہتمام موجود ہے کہ اگر وہ آئین سے متصادم ہو تو کالعدم قرار دیا جائے گا لیکن ایسی کوئی بات آئین سازی کے بارے میں نہیں کی گئی بلکہ واضح طور پر لکھ دیا گیا کہ پارلیمان کے دستور میں ترمیم کے اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
ہمارے ہاں اس معاملے میں کچھ عدالتی فیصلوں کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آئین سازی کا جائزہ لے سکتی ہے اور آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی فیصلے کے ذریعے آئین کی کسی واضح شق کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ہوا ہے تو کیا وہ عدالتی نظیر آئین کی نظر میں معتبر ہے؟
یعنی کیا آئین کی کسی شق کو ماورائے پارلیمان منسوخ یا معطل کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ خود پارلیمان کے اندر سے ایسے شکوے سامنے آتے رہے کہ آئین کو ماورائے پارلیمان ’ری رائٹ‘ کیا جاتا ہے۔
تو آئین کو اگر ماورائے پارلیمان ازسرے نو لکھنا قابل اعتراض ہے تو آئین کی کسی شق کو ماورائے پارلیمان معطل یا منسوخ کرنا کیسا عمل قرار پائے گا؟
عدالتی نظیر کا معاملہ بذات خود بہت دلچسپ ہے۔
زمینی حقیقتوں کے بدلنے سے عدالتی نظیر بھی بدلتی رہتی ہے۔ عدالتی نظیر تو پر یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ نے فرد واحد کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیے رکھا۔ کیا وہ عدالتی نظیر بھی قابل تقلید ہے؟
تو کیا لا اینڈ جسٹس کمیشن کو تمام عدالتی نظائر کا ایک بار بیٹھ کر جائزہ نہیں لینا چاہیے کہ ان کی شان نزول کیا تھی اور ان میں سے کون کون سا فیصلہ کس حد تک قابل عمل ہے؟ ایسی کوئی سٹڈی اگر ہوتی ہے تو امکان ہے عدالتی نظائر کے حوالے سے آئین میں ایک ترمیم مزید کرنا پڑے گی۔
ایک دور کی کوڑی یہ لائی جاتی ہے کہ فرض کریں پارلیمان آئین میں لکھ دے کہ آج کے بعد فلاں سیاسی جماعت تاحیات اقتدار میں رہے گی یا ایسی کوئی اور بات کر دے تو عدالت کو حق نہیں کہ اسے منسوخ کر دے۔
سادہ لوحی کا تو کوئی جواب نہیں لیکن مفروضوں کے گھوڑے ہی دوڑانے ہیں تو سوال یہ ہے کہ بشری تقاضے کے مطابق ایسی غلطی کا امکان وہاں زیادہ ہے جہاں چار پانچ سو عوامی نمائندے بیٹھ کر فیصلہ کر رہے ہیں یا یہ امکان وہاں زیادہ ہے جہاں چند محترم لوگ بیٹھ کر فیصلے کر رہے ہیں؟
نیز یہ کہ اگر ایسے ہی مفروضوں کی بنیاد پر جورسپروڈنس کو تشکیل دینا ہے تو امکان تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پارلیمان ایسا ہی کوئی فیصلہ کرے اور عدالت اس کی توثیق کر دے۔ پھر کیا ہو گا؟
ایک سوال یہ بھی ہے کیا کسی بھی پٹیشن کو سننے کےلیے ججوں کو اصرار کرنا چاہیے، یہ اصرار درخواست گزار کریں تو سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ درخواست گزار ارجنٹ ہیئرنگ یعنی جلد سماعت کی درخواست بھی دے سکتے ہیں۔ وہ کیوں نہیں دے دیتے؟ ان کے حصے کا بوجھ کوئی اور کیوں اٹھا رہا ہے؟
پھر یہ کہ ترمیم تو ہوچکی ہے اور آئین کا حصہ بن چکی ہے، اور اس کے بعد آئینی مقدمات سننے کا اختیار آئینی بینچ کے پاس چلا گیا ہے، تو کیا سب سے پہلے جو کام کرنا چاہیے وہ یہ نہیں ہے کہ آئینی بینچ کی تشکیل ہو تاکہ تمام آئینی مقدمات وہ سن سکے؟
آئینی بینچ بنانے سے قبل فل کورٹ کے ذریعے درخواست سننے کا مطلب کیا یہ نہیں ہے کہ پہلے ہی سے فیصلہ ہو گیا کہ آئینی ترمیم غلط ہے اور اس پر عمل نہیں کرنا؟
آخری سوال یہ کہ کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت بنی ہوئی کمیٹی آئینی شق پر حاوی ہو سکتی ہے؟ اس ایکٹ کے تحت کمیٹی کسی بھی درخواست کے لیے بینچ بنا سکتی تھی لیکن آئینی بینچ کے متعلق آئینی شق آنے کے بعد اب کمیٹی یہ کام کیسے کر سکتی ہے؟
سوالات کچھ اور بھی ہیں لیکن بعض اوقات ادب کے تقاضوں کے تحت کچھ سخن ہائے گفتہ کا ناگفتہ رہ جانا ہی مناسب ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔