لڑائی جاری رکھنا چاہتا تھا، روس کے کہنے پر شام چھوڑا: بشارالاسد

معزول صدر کے مطابق وہ اپوزیشن فورسز کے دمشق پر قبضے کے بعد ملک میں ہی رہنا چاہتے تھے، لیکن روسی فوج نے انہیں اپنے اڈے سے اس وقت نکال لیا جب وہ حملے کی زد میں آیا۔

شام کے معزول صدر بشار الاسد کی بل بورڈ پر ایک تصویر جو بارود کے چھروں سے قدرے متاثر ہوئی ہے۔ یہ تصویر دمشق کے شمال میں واقع برزہ سائنسی تحقیقاتی مرکز کے باہر لگی ہے، جسے اسرائیلی فضائی حملے میں ایک روز قبل 10 دسمبر، 2024 کو نشانہ بنایا گیا تھا (اے ایف پی)

شام کے معزول صدر بشار الاسد نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ وہ ایک ہفتہ قبل اپوزیشن فورسز کے دارالحکومت دمشق پر قبضے کے بعد ملک میں ہی رہنا چاہتے تھے، لیکن روسی فوج نے انہیں مغربی شام میں اپنے اڈے سے اس وقت نکال لیا جب وہ حملے کی زد میں آیا۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بشارالاسد کا اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد پہلی بار ایک بیان سامنے آیا ہے۔

انہیں تقریباً ایک ہفتہ قبل اپوزیشن فورسز نے معزول کر دیا تھا۔ بشار الاسد نے اپنے فیس بک پیج پر جاری بیان میں مزید کہا کہ انہوں نے ’آٹھ دسمبر کی صبح دمشق چھوڑا، باغیوں کے دارالحکومت پر دھاوا بولنے کے چند گھنٹوں بعد۔‘

بشار الاسد نے بتایا کہ انہوں نے روسی اتحادیوں کے ساتھ رابطے میں لاذقیہ کے ساحلی صوبے میں واقع ان کے حمیمیم فضائی اڈے کا رخ کیا، جہاں سے وہ لڑائی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب روسی اڈے پر ڈرون حملہ ہوا تو روسیوں نے آٹھ دسمبر کی رات انہیں روس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔

ان کے بقول: ’میں نے ملک کسی منصوبے کے تحت نہیں چھوڑا جیسا کہ پہلے رپورٹ کیا گیا۔‘

انگریزی زبان میں اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ ’ان واقعات کے دوران میں نے کبھی عہدہ چھوڑنے یا پناہ لینے پر غور نہیں کیا اور نہ ہی کسی فرد یا جماعت کی طرف سے ایسی کوئی تجویز دی گئی۔

’واحد راستہ یہ تھا کہ دہشت گردوں کی یلغار کے خلاف لڑائی جاری رکھی جائے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بشار الاسد نے آج کے بیان میں ملک کے نئے رہنماؤں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا۔
 
وہ ایک ہفتے سے کچھ زیادہ عرصہ قبل روس فرار ہو گئے تھے، جب ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی قیادت میں تیز رفتار حملے نے شہر در شہر ان کی حکومت کا کنٹرول ختم کرتے ہوئے اپوزیشن فورسز کو شامی دارالحکومت تک پہنچا دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے نے دنیا کو حیران کر دیا اور شام سمیت دنیا بھر میں جشن منایا گیا کیوں کہ 2011 میں جمہوریت کے حق میں مظاہروں کے خلاف ان کے کریک ڈاؤن نے صدی کی سب سے زیادہ خونریز جنگوں میں سے ایک کو جنم دیا۔

اپنے ٹیلی گرام چینل پر بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’میری شام سے روانگی نہ تو پہلے سے طے تھی اور نہ ہی یہ جنگ کے آخری لمحات میں ہوئی۔
 
’ماسکو نے اتوار، آٹھ دسمبر کی شام فوری طور پر روس منتقلی کی درخواست کی جب ریاست دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلی جائے اور کوئی بامعنی کردار ادا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے، تو کسی بھی عہدے کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔‘
 
دوسری جانب نئی عبوری حکومت کے سیاسی شعبے کے ترجمان عبیدہ ارناؤت نے آج ایک انٹرویو میں کہا کہ شامی دھڑوں کے دمشق میں داخل ہونے کے ساتھ ہی ’اسد حکومت کا مکمل خاتمہ ہو چکا اور واپسی کا کوئی امکان نہیں‘ اور روس کو ’شامی سرزمین پر اپنی موجودگی اور اپنے مفادات پر نظرثانی کرنی چاہیے۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ’شام ایک نئے دور میں داخل ہو چکا جو دنیا کے لیے کھلا ہو گا۔ نئی حکومت ہمسایہ ممالک اور دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی خواہاں ہے۔‘
 
انہوں نے امریکہ اور دیگر ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ ایچ ٹی ایس کو ’غلط اور غیر منصفانہ‘ طور پر دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے پر نظرثانی کریں۔
 
حزب مخالف کا مرکزی گروپ ہیئت تحریر الشام  ماضی میں القاعدہ سے منسلک رہا ہے۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا