قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کا کہنا ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے عسکریت پسندی کے خاتمے اور ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے نیکٹا کی تشکیل کردہ قومی پالیسی منظور کر لی ہے۔
نیکٹا کا قیام 2008 میں وزارت داخلہ کے تحت عمل میں آیا تھا۔ اس کا مقصد انٹیلی جنس اداروں سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ دہشت گردی کے معاملات پر معلومات شیئر کرے اور بروقت کارروائی میں مدد فراہم کرنا تھا۔
نیکٹا نے جمعے کو ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق نیکٹا نے اقوام متحدہ کے آفس برائے روک تھام منشیات اور جرائم کے اشتراک کے ساتھ اسلام آباد کے اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اس پالیسی کو متعارف کرایا۔
اس موقعے پر وفاقی محکموں، وزارتوں اور سول سوسائٹی کے اداروں سمیت دیگر نے پالیسی میں پاکستان میں پر تشدد شدت پسندی کی روک تھام پر زور دیا۔
حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے نیکٹا کے ڈائریکٹر جنرل (ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ) ڈاکٹر خالد چوہان نے اس بات پر زور دیا کہ عسکریت پسندی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے اور ایک پر امن معاشرے کی تعمیر کے لیے پورے معاشرے کے نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دسمبر 2024 میں وفاقی حکومت نے پرتشدد واقعات کی روک تھام کی قومی پالیسی کی منظوری دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی کی کامیابی کا انحصار اس پر توجہ کے ساتھ عمل در آمد پر منحصر ہے، جبکہ یہ پالیسی وفاقی حکومت کے ترقیاتی نظریے کے تحت تشکیل دی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈائریکٹر ریسرچ نیکٹا ڈاکٹر دیاب گیلانی نے شرکا کو اس پالیسی کی ترجیحات کے بارے میں آگاہ کیا، جن میں امن کو فروغ دینا، موثر مواصلات کا استعمال، تعلیم میں اصلاحات، اور بحالی کے نظام کو بڑھانا شامل ہیں۔
نیکٹا کے مطابق اس قومی مکالمے نے پرتشدد عسکریت پسندی کے خلاف ایک متحد قومی سطح کی کوشش کی شروعات کی ہے۔
پاکستان میں حال ہی میں عسکریت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جب کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
دوسری جانب سکیورٹی فورسز کی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔ پاکستان فوج کے مطابق جمعرات اور جمعے کو خیبرپختونخوا میں سکیورٹی فورسز کی مختلف کارروائیوں میں 10 عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر سکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں چار عسکریت پسند مارے گئے۔
جبکہ ضلع شمالی وزیرستان میں بھی چار مختلف واقعات میں دتہ خیل، حسن خیل، غلام خان اور میر علی میں سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے نتیجے میں چھ عسکریت پسند مارے گئے۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں بتایا گیا کہ عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور ’پاکستان کی سکیورٹی فورسز ملک سے عسکریت پسندی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘
آپریشن عزم استحکام کی منظوری
پانچ ماہ قبل ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم پاکستان نے انسداد عسکریت پسندی لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی تھی، جس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’آپریشن عزم استحکام کو شروع کرنے کی منظوری پاکستانیوں کے عسکریت پسندی کے خاتمے کے قومی عزم کی علامت ہے۔‘
اس وقت جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’آپریشن عزم استحکام ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں ملک میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششوں کے متعدد خطوط کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔‘
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی سالانہ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق 2024 کے دوران پاکستانی سکیورٹی فورسز پر 444 عسکریت پسند حملے ہوئے، جن میں کم از کم 685 اموات ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں خیبر پختونخوا کے بعد سب سے زیادہ جانی نقصان بلوچستان میں ہوا، جہاں گذشتہ سال کے دوران مجموعی طور پر 782 افراد جان سے گئے۔