پاکستانی بہن بھائی کی غزہ کے بچوں کے لیے آن لائن عالمی دستخطی مہم

تباہ حال غزہ کے 20 لاکھ سے زائد افراد، جن معصوم بچے بھی شامل ہیں، 15 ماہ سے زیادہ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے۔ ان بچوں میں سے ایک بڑی تعداد کو معذوری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

29 جنوری 2025 کو وسطی غزہ میں صلاح الدین روڈ پر بے گھر فلسطینی بچے ٹرک کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں جب لوگ جنوب سے غزہ کی پٹی کے شمالی حصوں کی طرف جا رہے ہیں۔ پاکستانی بہن بھائی نے ان بچوں کے لیے آواز بلند کی ہے (ایاد بابا / اے ایف پی)

اگرچہ غزہ پر 15 ماہ طویل نسل کش حملے حالیہ فائر بندی معاہدے کے بعد عارضی طور پر رک گئے ہیں لیکن ان کے پیچھے چھوڑے گئے تباہی کے مناظر ناقابلِ تصور ہیں اس صورت حال میں دو پاکستانی بچوں نے فلسطین کے معذور بچوں کے حق میں آواز بلند کی ہے اور وہاں بچوں کے لیے ہنگامی طور پر سہولتیں فراہم کرنے کے لیے آن لائن عالمی شستخطی مہم شروع کی ہے۔

تباہ حال غزہ کے 20 لاکھ سے زائد افراد، جن معصوم بچے بھی شامل ہیں، 15 ماہ سے زیادہ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے۔ ان بچوں میں سے ایک بڑی تعداد کو معذوری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جنگ بندی سے غزہ کے عوام کو کچھ سکون ضرور ملا ہے لیکن یہ ان ناقابلِ تلافی نقصانات کو ختم نہیں کر سکتی خصوصاً وہ بچے جنہوں نے ان حملوں کے دوران اپنے اعضا کھو دیے۔

فلسطین کے لیے اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی امداد (او سی ایچ اے) کے مطابق غزہ کی پٹی میں فلسطینی بچے بے دردری سے قتل کیے گئے اور کئی بھوک اور سردی سے اپنی جانوں کی بازی ہار گئے۔

اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل برائے انسانی امداد اور ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر ٹام فلیچر نے کہا: ’غزہ میں ہزاروں بچے قتل کیے گئے، کئی بھوکے مر گئے اور دوسرے سردی سے مارے گئے۔ ہزاروں بچے زخمی ہوئے، یتیم ہو گئے اور اپنے خاندانوں سے بچھڑ گئے۔‘

اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، تقریباً 1.5 لاکھ حاملہ خواتین اور نئی مائیں غزہ میں فوری طبی امداد کی منتظر ہیں۔

پاکستانی بہن بھائی فلسطینی بچوں کے لیے سرگرم

فائر بندی کے بعد دو پاکستانی بچوں نے ایک بار پھر فلسطین کے معذور بچوں کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ 10 سالہ عبیدہ الفضاح حفیہ اور ان کے 12 سالہ بھائی غلام بشار حفی نے اپنی مہم ’وائس فار دی وائس لیس‘ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

ان کے والد اور تحریک کے سرپرست پروفیسر ڈاکٹر اورنگزیب حفی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں ان بہن بھائیوں نے اسرائیلی حملوں کے دوران سکولوں، زچگی مراکز، کنڈرگارٹنز اور ہسپتالوں کی تباہی پر شدید افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے ان اداروں کو نشانہ بنانے کو ’بچوں کا قتلِ عام‘ قرار دیا جو اس تشدد کے وحشیانہ اور سوچے سمجھے طریقہ کار کی عکاسی کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فائر بندی امید کا پیغام ضرور لائی ہے لیکن یہ سوال بھی اٹھاتی ہے کہ غزہ کے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا جہاں لاکھوں بچے یتیم ہو چکے ہیں، ہزاروں نے اپنی پورے خاندان کھو دیے اور بے شمار بچے عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے ہیں۔

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ یہ بچے اب صرف سانس لینے کے قابل ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں۔

پاکستانی بچوں نے زور دیا کہ معذور اور یتیموں کی فوری نگہداشت کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔

یونیسیف کے مطابق پچھلے 15 ماہ میں ہزاروں بچے قتل یا زخمی ہو چکے ہیں مگر ان کے حقیقی درد اور تکلیف کو اعداد و شمار میں نہیں سمویا جا سکتا۔ ہر بچہ صرف ایک ہندسہ نہیں بلکہ ایک زندگی ہے جن سے ان کا بچپن اور معصومیت چھین لی گئی ہے۔

پاکستانی بچوں نے یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل اور اقوامِ متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس سے ہنگامی اقدامات کی اپیل کی۔ انہوں نے ایک نئی آن لائن مہم کا آغاز کیا۔

اس سے پہلے بھی یہ دونوں بچے اقوامِ متحدہ میں ایک نمائش کے ذریعے غزہ کے مسٔلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے آگے آئے تھے۔

یہ نمائش 26  نومبر 2024 سے 10 جنوری 2025 تک اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے وزیٹرز لابی میں جاری رہی۔

پاکستانی بچوں نے اس مہم کو مزید تقویت دینے کے لیے ایک آن لائن درخواست بھی شروع کی، جو 20 دسمبر 2024 کو عالمی یومِ انسانی یکجہتی کے موقع پر پیش کی گئی۔

29  نومبر کو فلسطینی عوام سے یکجہتی کے عالمی دن پر ان پاکستانی بچوں نے اپنے تمام ایوارڈز غزہ کے بچوں کے نام کر دیے۔

انہوں نے اپنے کھلے خطوط اپنے خون سے لکھے تاکہ دنیا کی توجہ غزہ اور دیگر جنگ زدہ علاقوں کے بچوں کی تکلیف کی طرف مبذول کرائی جا سکے۔

ان پاکستانی بچوں کو کئی بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان