’ایسا لگتا ہے جیسے میری روح اور زندگی لوٹ آئی ہے، ہم اپنے گھر دوبارہ تعمیر کریں گے خواہ ریت اور گارے سے کیوں نہ کرنے پڑیں۔‘ یہ کہنا ہے متعدد بار بےگھر ہونے کے بعد غزہ لوٹنے والی لامیس العودی کا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے 22 سالہ لامیس العودی کا کہنا تھا کہ ’یہ میری زندگی کا سب سے خوشی کا دن ہے۔ واپسی کی خوشی کے ساتھ ایک سال سے زائد عرصے کی جنگ کی وجہ سے ہونے والی تباہی کا حد درجہ صدمہ پہنچا۔‘
اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے بعد لاکھوں بےگھر فلسطینی تباہ حال غزہ کے شمال کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
اسرائیلی حکومت نے پیر کے روز کہا کہ غزہ میں یرغمال بنائے گئے آٹھ افراد جو فائر بندی کے پہلے مرحلے میں رہا ہونے والے تھے، مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کا مقصد 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری لڑائی کا خاتمہ ہے۔
اسرائیل نے حماس پر فائر بندی کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے فلسطینیوں کو شمالی غزہ واپس جانے سے روک دیا تھا لیکن وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اتوار کی رات کہا تھا کہ ایک نئے معاہدے پر پہنچنے کے بعد انہیں گزرنے کی اجازت دی جائے گی۔
حماس نے کہا تھا کہ واپسی روکنا فائر بندی کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
اسرائیلی ٹینکوں کی نگرانی میں لوگوں کی بڑی تعداد اب کھلے نتساریم راہداری کے ذریعے شمال کی طرف جا رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ لوگ ضروری سامان سے بھرے ہوئے ریڑھے کھینچ رہے تھے، جبکہ دیگر اپنے سامان کو اٹھائے ہوئے چل رہے تھے۔
پیر کی رات، غزہ میں حماس حکومت نے کہا کہ 300,000 سے زائد بےگھر افراد دن کے دوران ’شمالی گورنریٹس‘ میں واپس آگئے ہیں، جو جنگ سے شدید متاثرہ غزہ کا ایک علاقہ ہے۔
علاقے میں پہنچنے کے بعد مردوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔
غزہ شہر میں ایک منہدم عمارت کے سامنے کچی سڑک کے اوپر لٹکائے گئے ایک نئے بینر پر لکھا تھا ’غزہ میں خوش آمدید۔‘
حماس کے زیر انتظام حکومت کے میڈیا آفس کے مطابق غزہ شہر اور شمال میں واپس لوٹنے والے خاندانوں کو پناہ دینے کے لیے ایک لاکھ 35 ہزار خیمے اور قافلے درکار ہیں۔
تاہم حماس نے اس واپسی کو فلسطینیوں کی فتح قرار دیا ہے جو قبضے اور نقل مکانی کے منصوبوں کی ناکامی اور شکست کا اشارہ ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کو ’خالی کرنے‘ اور فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں آباد کرنے کا خیال پیش کیا تھا جس کی علاقائی رہنماؤں نے مذمت کی تھی۔
صدر محمود عباس کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے کسی بھی منصوبے کو ’سختی سے مسترد اور مذمت‘ کی گئی ہے۔