افغانستان کی وزارت اطلاعات و ثقافت نے تصدیق کی ہے کہ طالبان حکمرانوں نے ملک میں خواتین کے واحد ریڈیو چینل پر چھاپہ مار کر اس کی نشریات معطل کر دی ہیں۔
سخت گیر اسلامی گروپ نے ریڈیو چینل پر الزام عائد کیا کہ وہ ’بغیر اجازت‘ اپنا مواد اور پروگرامنگ کسی غیرملکی ٹی وی چینل کو فراہم کر رہا تھا۔ یہ اقدام ان چند آخری اداروں میں سے ایک کے خلاف مزید سختی ہے جہاں افغان خواتین ابھی تک ملازمت کر رہی تھیں۔ خواتین پہلے ہی طالبان کے دباؤ اور سخت نگرانی میں کام کر رہی ہیں۔
ریڈیو بیگم جو کابل میں قائم ہے، طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے سے پانچ ماہ قبل 2021 میں شروع ہوا۔ ریڈیو نے تصدیق کی ہے کہ طالبان حکام نے منگل کو وزارت اطلاعات و ثقافت کے اہلکاروں کے ساتھ اس کے دفتر پر چھاپہ مارا، جگہ کی تلاشی لی اور عملے کو کام سے روک دیا۔
ریڈیو نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان حکام نے ’خاتون صحافیوں سمیت ریڈیو بیگم کے عملے موبائل فونز، کمپیوٹرز، ہارڈ ڈرائیوز اور فائلیں ضبط کر لیے اور تنظیم کے دو مرد ملازمین کو حراست میں لے لیا، جو کسی اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز نہیں تھے۔‘
ریڈیو بیگم کا تمام تر مواد افغان خواتین تیار کرتی تھیں۔ طالبان نے یہ واضح نہیں کیا کہ کون سا غیرملکی ٹی وی چینل اس معاملے میں ملوث تھا لیکن ریڈیو بیگم کا شراکت دار سیٹلائٹ چینل بیگم ٹی وی فرانس سے مواد نشر کرتا ہے اور افغان سکول کے نصاب کے لیے ساتویں سے 12ویں جماعت تک تعلیمی پروگرام چلاتا ہے۔
منگل کو بند ہونے سے قبل ریڈیو بیگم روزانہ کم از کم چھ گھنٹے کے تعلیمی اسباق نشر کر رہا تھا جن میں صحت، نفسیات، اور خواتین کے لیے مخصوص روحانی پروگرام شامل تھے۔ یہ نشریات افغانستان کے مختلف حصوں میں خواتین کو تعلیم فراہم کرنے کا اہم ذریعہ تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان کے مطابق ریڈیو بیگم نشریاتی پالیسی کی خلاف ورزی کر رہا تھا اور اس نے اپنے لائسنس کا غلط استعمال کیا۔
وزارت اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ متعدد خلاف ورزیوں کے بعد کیا گیا، جن میں ایک غیرملکی ٹی وی چینل کو بغیر اجازت مواد اور پروگرامنگ کی فراہمی شامل ہے۔ تاہم وزارت نے یہ واضح نہیں کیا کہ ریڈیو سٹیشن کب دوبارہ معمول کے مطابق کام کر سکے گا۔
وزارت نے کہا کہ وہ تمام ضروری دستاویزات کا جائزہ لے گی تاکہ سٹیشن کے مستقبل کا فیصلہ کیا جا سکے۔
ریڈیو بیگم نے کسی بھی سیاسی سرگرمی میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ’افغان عوام، اور خاص طور پر افغان خواتین کی خدمت کے لیے پرعزم ہے۔‘
یہ دوسرا موقع ہے جب طالبان نے کسی ایسے میڈیا ادارے کو بند کیا ہے جس پر وہ غیر ملکی میڈیا کے ساتھ کام کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ گذشتہ سال مئی میں، طالبان نے افغان صحافیوں اور ماہرین کو متنبہ کیا کہ وہ افغانستان انٹرنیشنل ٹی وی کے ساتھ تعاون ختم کریں۔
یہ ایک آزاد نشریاتی ادارہ ہے جو جلاوطنی میں رہ کر جنگ زدہ ملک کی خبریں نشر کر رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ ریڈیو بیگم کی معطلی کا فیصلہ واپس لے۔
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے 2024 کے آزادی صحافت کے انڈیکس کے مطابق افغانستان صحافتی آزادی میں مزید نیچے چلا گیا ہے اور اب 180 میں سے 178ویں نمبر پر ہے۔ وہ 2023 میں 152ویں درجے پر تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کے کنٹرول میں حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔
© The Independent