لاہور میں جاری بک فیئر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ گو کہ یہ حسین اتفاق ہر سال ہوتا ہے بلکہ اب تو سال میں بارہا ہوتا ہے۔ اس برس یہ پانچواں کتاب میلہ ہے، جس میں شرکت کا موقع ملا۔
ان کتاب میلوں میں اور خاص کر لاہور کے کتاب میلے میں یہ بات تو اندھے کو بھی سمجھ آجاتی ہے کہ کتاب خریدی بھی جا رہی ہے اور پڑھی بھی جا رہی ہے۔ ہاں کیسی کتاب خریدی جا رہی ہے اور پڑھ کر کیسے سمجھی جا رہی ہے، اس پر کوئی جید شخص ہی بات کر سکتا ہے۔
ان میلوں میں میرے ساتھ اکثر یہ اتفاق بھی ہوتا ہے کہ کوئی سفیر یا وزیر مل جاتا ہے۔ مروت میں مجھے کتاب پیش کرنا پڑتی ہے، مروت میں انہیں شکریہ کہہ کر کتاب پکڑنا پڑتی ہے۔ میڈیا ٹیم کہتی ہے: ’سر مسکرائیں‘، ’میڈم آپ ادھر کیمرے کو دیکھیں‘، ’کتاب دائیں ہاتھ میں پکڑ لیں۔‘
مروت ہی میں کہہ دیا جاتا ہے کہ ویسے میں کتابیں کم ہی پڑھتا / پڑھتی ہوں مگر یہ کتاب ضرور پڑھوں گا /گی۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا، سوائے پرویز رشید صاحب کے کہ انہوں نے نہ صرف میرا مروتاً دیا گیا ناول پڑھا بلکہ باقی تینوں ناول بھی منگوا کر تفصیل سے پڑھے اور ان پر بات بھی کی۔ دنیا میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
قصہ مختصر، لاہور کتاب میلے میں بھی ہماری صوبائی وزیر تعلیم سے ملاقات ہوئی۔ خوشی اس بات کی ہوئی کہ کوئی وزیر کتابوں کے جنگل میں سکیورٹی کے بغیر اکیلا گھومتا ہوا نظر آگیا۔ باقی رہا کتاب پڑھنے نہ پڑھنے کا معاملہ تو خدا جسے توفیق دے۔
جہلم بک کارنر سے ’ڈاکٹر سعد خان کی بیگم جناح‘ اٹھائی، الفیصل پبلشرز سے ’قابوس نامہ‘ اور’ music gharanas of the sub continent‘ تحفتاً ملی۔ سامنے ہی ’سنگ میل‘ والوں کا سٹال تھا۔ علی کامران بڑے نفیس انسان ہیں، کتاب نہ بھی خریدنی ہو تو سٹال پر قدم خودبخود رک جاتے ہیں۔
میرا خیال تھا کہ صبح کا وقت ہے ابھی لوگ کہاں آئیں گے لیکن توبہ کیجیے صاحب۔ لگ رہا تھا کتاب مفت میں بٹ رہی ہے۔ علی کامران نے چائے منگوائی تھی مگر بھیڑ ایسی تھی کہ گھونٹ بھرنے کی فرصت بھی نہ ملی۔
زیادہ تر خواتین قاری، مستنصر حسین تارڑ صاحب کی کتابیں خرید رہی تھیں۔ دل میں حسد کی لہر اٹھی، جسے دبانے کی قطعاً ضرورت نہیں سمجھی۔ میں نے بہت عرصہ پہلے ہی تارڑ صاحب کو کہہ دیا تھا کہ ادب میں آپ میری سوکن ہیں۔ کیا کمال کی ریڈر شپ ہے تارڑ صاحب کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’شہاب نامہ‘ بھی دیکھا کہ میرے سامنے ہی کوئی چار پانچ کاپیاں تو نکل گئیں۔ ’کار جہاں دراز ہے‘، ’کلیات فراز‘ یہ بھی دھڑا دھڑ بک رہی تھیں اور ’راجہ گدھ‘ بھی۔ سیالکوٹ سے دو نوجوان آئے ہوئے تھے، انہوں نے 20، 25 کتابیں خریدیں اور اے حمید صاحب کی کلیات کے لیے بے چین پھر رہے تھے، جس کی غالباً آخری کاپی کہیں کتابوں میں تلاش کی جا رہی تھی۔ عرفان جاوید صاحب کی کتابیں بھی فروخت ہو رہی تھیں اور ایک صاحبہ ’کلیات کرنل محمد خان‘ ڈھونڈ رہی تھیں۔
بھئی کیا خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں، لکھنے والے بھی کہ ان کے چاہنے والے ان کے جانے کے بعد بھی ان کے لکھے کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتے ہیں۔ فکشن کا قاری بہت قیمتی ہوتا ہے اور مجھے آج یہ گنج گراں ہائے مایا دیکھنے کو ملا۔
علی کامران نے مجھے تارڑ کی تازہ ترین کتاب ’باتاں ملاقاتاں‘ دی جس میں ’صادقین‘ پر لکھے ان کے مضمون کو خاص طور سے پڑھنے کو کہا۔ ’ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبدالکریم‘ خود ہی اٹھا لی۔ ’چچا بھتیجیاں‘ علی نے چپکے سے تھیلے میں ڈال دی۔
ارادہ تو یہ ہی تھا کہ اس برس لکھوں گی، پڑھنا اگلے سال پر اٹھا رکھا تھا لیکن آج میرے ساتھ وہی واقعہ ہوا کہ سردار جی روز کیلے کے چھلکے سے پھسل جاتے تھے۔ بہت کوشش کرتے تھے کہ بچ جائیں۔ ایک روز گھر سے نکلے تو سامنے ہی چھلکا پڑا تھا، دیکھ کے سر پر ہاتھ مارا اور دہائی دی ’ہائے او ربا فیر تلکنا پئے گا۔‘ (ہائے میرے رب، پھر سے پھسلنا پڑے گا)
بس کچھ ایسا ہی احوال میرا بھی ہے، کتاب مل جائے اور اچھی کتاب مل جائے تو پڑھے بغیر رہا نہیں جاتا۔ لکھنا اگلے برس پر اٹھا رکھتی ہوں، اس بار ’فیر تلک‘ کے دیکھتے ہیں۔
ایک اور رجحان جو دیکھنے کو ملا، وہ یہ تھا کہ ہر پبلشر کے اپنے ادیب ہیں اور ان ادیبوں کے قاری انہیں تلاش کرتے ان سٹالز پر پہنچ رہے تھے۔ جہلم بک کارنر پر کئی نئے لکھنے والوں کی کتابیں دیکھنے کو ملیں۔ وہ کتابیں بھی اسی طرح فروخت ہو رہی تھیں۔
کتاب لکھی جانی چاہیے، کتاب پڑھی جانی چاہیے۔ کتاب لکھی بھی جا رہی ہے اور کتاب پڑھی بھی جا رہی ہے، اس لیے یہ کہنا کہ لوگ کتاب نہیں پڑھتے بالکل حماقت ہے۔ قسم لے لیجیے، جو ہم نے کسی کو برگر، شوارما یا بریانی کھاتے دیکھا ہو۔
لاہوریے بڑے ادب دوست اور مہذب لوگ ہیں۔ کھانے کے شوقین ہیں مگر اتنے بد ذوق نہیں کہ کتابوں کے پیسوں سے برگر اور شوارمے کھا جائیں، بریانی تو یوں بھی لاہور میں ملتی ہی نہیں۔ ویسے بھی لاہوریے کھابے کھاتے ہیں، برگر اور شوارمے نہیں کھاتے۔ یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔ جس نے حقیقت دیکھنی ہو خود جا کے دیکھ لے۔
برگر، شوارمے والی پوسٹ کا خیال اس لیے بھی آگیا کہ پچھلے برس ابوظبی میں پاکستانی سفارت خانے کی ایک تقریب میں ایک بزرگ نے یہ پوسٹ بہت یقین کے ساتھ سنائی۔ بزرگ سادہ ہوتے ہیں اور لاہوریوں کے بارے میں افواہوں پر یقین کرنے کے لیے سادہ ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا۔
اسی لیے سوچا کہ اس بار غور سے دیکھوں کہ یہ ہزاروں لاہوری یہاں کرنے کیا آتے ہیں۔ حامد میر صاحب بھی غالباً اسی کھوج میں تھے، ان سے بھی مڈھ بھیڑ ہوئی۔ ہمارا یقین نہ ہو تو ان ہی سے پوچھ لیجیے کہ لاہوریے کتاب میلے میں کھا رہے تھے، کتاب خرید رہے تھے یا دونوں میں سے کچھ نہیں کر رہے تھے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔