امریکہ کی نائب صدر کاملہ ہیرس نے ریاست سے لڑنے والی ایرانی خواتین کی ’جرات‘ کو سلام پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ ایران کو اقوام متحدہ کی خواتین کے حقوق کے کمیشن سے نکالنے کے لیے کام کرے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کاملہ ہیرس نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ ایران کو کمیشن سے نکلوانے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ کام کرے گا۔ اس کمیشن کے ممبران چار سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔
ہیرس نے ایک بیان میں کہا: ’ایران نے خواتین کے حقوق سے انحراف کرکے اور اپنے ہی لوگوں پر وحشیانہ کریک ڈاؤن کے ذریعے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اس کمیشن میں خدمات انجام دینے کے لیے نااہل ہے۔‘
ہیرس نے کہا کہ ایران کی موجودگی اس کی رکنیت کی سالمیت اور اس کے مینڈیٹ کو آگے بڑھانے کے کام کو بدنام کرتی ہے۔
16 ستمبر کو 22 سالہ مہسا امینی کی مبینہ طور پر درست طریقے سے حجاب نہ لینے کے معاملے پر اخلاقی پولیس کے زیر حراست موت کے بعد سے ایران کو شدید مظاہروں کا سامنا ہے، جو 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔
کاملہ ہیرس کے بقول: ’احتجاج کرنے والوں سے میں پھر کہتی ہوں کہ ہم آپ کو دیکھتے ہیں اور آپ کو سنتے ہیں۔ میں آپ کی بہادری سے متاثر ہوں، جیسا کہ دنیا بھر کے لوگ ہیں۔‘
امریکہ اور یورپی اتحادیوں نے احتجاجی مظاہروں کے بعد ایران پر پابندیوں کا ایک سلسلہ عائد کیا ہے اور ایرانی حکام کی طرف سے متاثر ہونے والی انٹرنیٹ تک رسائی کو بحال کرنے میں مدد کے لیے کام کیا ہے۔
خواتین کے کمیشن میں شامل ممالک کا انتخاب اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل کرتی ہے، جس کے اراکین کو جنرل اسمبلی کے ذریعے ووٹ دیا جاتا ہے۔
ایران کی رکنیت کی حالیہ مدت 2026 میں ختم ہو رہی ہے۔
کمیشن میں موجود دیگر اقوام میں افغانستان بھی شامل ہے حالانکہ اس ملک کی اقوام متحدہ میں نمائندگی طالبان کے ذریعے نہیں ہے، جنہوں نے گذشتہ سال اقتدار میں واپسی پر خواتین کو سرکاری ملازمتوں سے روک دیا اور لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی لگا دی۔
امریکی نائب صدر نے سفارتی کوششوں کا اعلان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر رسمی اجلاس سے پہلے کیا، جس کی قیادت امریکہ اور البانیہ نے کی۔
اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر امیر سعید ایراوانی نے اس معاملے کو ملک کے ’داخلی معاملات کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا اور اپنے ملک کے خلاف امریکی پابندیوں کی مذمت کی۔
ایراوانی کے بقول: ’امریکہ کے لیے انسانی حقوق جیسے قابل قدر تصورات کا غلط استعمال کرنا اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارمز اور وسائل سے ہیرا پھیری کرکے اپنے ناجائز سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانا ایک معیاری عمل بن گیا ہے۔‘
ایراوانی نے کہا کہ ایرانیوں کو اظہار رائے کا حق حاصل ہے لیکن یہ احتجاج ’تشدد اور تباہی، افراتفری یا عدم استحکام کا باعث نہیں بننا چاہیے۔‘
سیشن میں ایرانی کارکنوں کی بات سنی گئی جنہوں نے مظاہرین کی حمایت میں ایک مضبوط نقطہ نظر پر زور دیا۔
نوبیل امن انعام یافتہ ایرانی حقوق کی وکیل شیریں عبادی، جو اب جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں، نے مہسا امینی کے کیس کو بے نقاب کرنے والے صحافیوں کو جیل بھیجنے کے بارے میں کہا کہ ریاست ’صحافت کو قابل اشاعت جرم‘ سمجھتی ہے۔
2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے سفارت کاری میں تعطل کے حوالے سے انہوں نے کہا: ’ایران کے عوام مغربی حکومتوں، خاص طور پر امریکہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کے معاہدے کرنے سے گریز کریں، جس سے حکومت کی بقا میں مدد ملے۔‘
اداکارہ اور کارکن نازنین بونیادی نے اس ’مفروضے‘ کو مسترد کر دیا کہ لازمی ہیڈ سکارف ایرانی ثقافت کا حصہ ہے اور اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا: ’آپ کو لوگوں کو ثقافتی اصولوں کے تابع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
خواتین رہنماؤں کا ایران کو عالمی کمیشن سے بے دخل کرنے کا مطالبہ
کاروبار، سیاست، وکالت اور فنون لطیفہ سے متعلق دنیا کی ممتاز خواتین رہنماؤں نے نیویارک ٹائمز میں ایک کھلا خط شائع کیا ہے جس میں ایران کو اقوام متحدہ کے خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن (سی ایس ڈبلیو) سے فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
گلوب نیوزوائر/ نالج بائیلینز کے مطابق خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن، کینیڈا کی نائب وزیراعظم اور وزیر خزانہ کرسٹیا فری لینڈ، میڈیا شخصیت اوپرا ونفری، نوبیل امن انعام یافتہ اور تعلیمی کارکن ملالہ یوسف زئی، معاشی و سیاسی رہنما کرسٹین لیگارڈ، امریکہ کی سابق خاتون اول اور لڑکیوں کی تعلیم کی ایڈوکیٹ مشیل اوباما اور اقوام متحدہ کی خواتین کی سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر فومزلے ملامبو نگکوکا شامل ہیں۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق سے متعلق ادارے یونیسیف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسے ایران میں ’بچوں اور نوجوانوں کی ہلاکتوں، ان کو زخمی کرنے اور حراست میں لیے جانے‘ کی رپورٹس پر انتہائی تشویش ہے۔
ایرانی نوجوانوں میں مقبول سمارٹ فون ایپس انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود انٹرنیٹ سے واقف نوجوان اب بھی اپنے احتجاج کی ویڈیوز اپ لوڈ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
انہوں نے سڑکوں پر بھی نئے ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔
مظاہروں کے لیے نکلنے والے نوجوان اب ماسک اور ٹوپیاں پہنتے ہیں، ٹریک ہونے سے بچنے کے لیے فون ساتھ نہیں رکھتے اور اگر ان کے لباس پر پینٹ بالز کے نشانات ہوں تو انہیں تبدیل کرنے کے لیے اضافی کپڑے لے جاتے ہیں۔ سکیورٹی فورسز پینٹ بالز کو بعد میں مظاہرین کی شناخت کے لیے استعال کرتی ہیں۔