اقوامِ متحدہ کے انسانی امداد کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ فائر بندی کے دوران غزہ میں امداد کے اضافے سے قحط کو بڑی حد تک ٹال دیا گیا ہے مگر فائر بندی کا خاتمہ قحط کے خطرے کو تیزی سے واپس لا سکتا ہے۔
عالمی تنظیم کے سربراہ ٹام فلیچر نے غزہ کے دو روزہ دورے کے بعد اتوار کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’میرے خیال میں قحط کا خطرہ بڑی حد تک ٹل گیا ہے۔ بھوک کی شدت اب اس سطح پر نہیں جہاں فائر بندی سے پہلے تھی لیکن فائر بندی ختم ہو جاتی ہے تو خطرہ جلد واپس آ سکتا ہے۔‘
ٹام فلیچر کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب فائر بندی کے تسلسل پر خدشات بڑھ رہے ہیں اور اس کے زیادہ پیچیدہ دوسرے مرحلے پر بات چیت ہونے والی ہے۔
فائر بندی کے معاہدے کے تحت اسرائیل نے روزانہ 600 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دینے کا وعدہ کیا تھا جو کئی ماہ کی تاخیر اور سکیورٹی خدشات کے بعد ایک نمایاں اضافہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی امداد کے دفتر کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے اب تک 12,600 سے زیادہ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو چکے ہیں۔
فلیچر نے حماس اور اسرائیل دونوں پر زور دیا کہ وہ اس معاہدے پر کاربند رہیں جس نے ’بہت سی جانیں بچائی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حالات اب بھی بہت خراب ہیں، لوگ اب بھی بھوکے ہیں۔ اگر فائر بندی ختم ہو گئی تو قحط جیسی صورتِ حال دوبارہ بہت جلد واپس آ جائے گی۔‘
بین الاقوامی طور پر قحط کا تعین کرنے کا معیار ہر 10 ہزار افراد میں روزانہ کم از کم دو افراد کا بھوک سے مرنا ہوتا ہے۔
موجودہ فائر بندی سے پہلے کئی ماہ تک غذائی تحفظ کے ماہرین، اقوامِ متحدہ کے حکام اور دیگر تنظیمیں غزہ میں، خاص طور پر شمالی حصے میں قحط کے خطرے سے خبردار کر رہے تھے جو جنگ کے ابتدائی ہفتوں سے تقریباً باقی پٹی سے کٹ چکا تھا۔ تاہم فائر بندی کے دوران لاکھوں فلسطینی شمالی غزہ واپس لوٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک کی امریکی سربراہ سنڈی مکین نے دسمبر میں سی بی ایس نیوز کو بتایا تھا کہ ’ہم بس بیٹھ کر ان لوگوں کو بھوکا مرنے نہیں دے سکتے۔‘
فلیچر نے کہا کہ 20 لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل غزہ کی آبادی، جس میں زیادہ تر بے گھر ہو چکے ہیں، کو مزید خوراک اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے صحت کی بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے بیماریوں کے پھیلنے کے خدشے کا اظہار کیا اور اس علاقے میں فوری طور پر مزید خیمے اور پناہ گاہیں فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا، خاص طور پر شمال میں واپس آنے والوں کے لیے، کیونکہ سردیوں کا موسم جاری ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہمیں ہزاروں خیمے فوری طور پر پہنچانے ہوں گے تاکہ جو لوگ واپس آ رہے ہیں وہ سخت موسم سے بچنے کے لیے پناہ حاصل کر سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلیچر نے غزہ میں داخلے کے لیے اسرائیل اور شمالی غزہ کے درمیان ایریز کراسنگ کا استعمال کیا جہاں انہوں نے تباہ شدہ علاقوں کا مشاہدہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’تباہی کے باعث یہاں کوئی فرق کرنا مشکل ہے کہ کون سی عمارت سکول تھی، کون سا ہسپتال تھا، اور کون سا گھر تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے لوگوں کو اپنے گھروں کی باقیات تلاش کرتے اور ملبے میں دبے اپنے پیاروں کی لاشیں نکالتے دیکھا۔ یہاں تک کہ کچھ کتوں کو بھی ملبے میں لاشوں کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے پایا گیا۔
ان کے بقول: ’یہ کسی ہولناک فلم جیسا منظر ہے۔ یہ ایک بھیانک حقیقت ہے جو بار بار دل توڑ دیتی ہے۔ آپ یہاں میلوں سفر کریں لیکن ہر طرف یہی کچھ نظر آتا ہے۔‘
فلیچر نے تسلیم کیا کہ فلسطینی عوام عالمی برادری کے رویے سے ناراض ہیں۔
انہوں نے کہا: ’یہاں مایوسی اور غصہ موجود ہے اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ دنیا پر ان کا غصہ کیوں ہے کیونکہ یہ سب کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے۔ لیکن میں نے ایک مزاحمتی جذبہ بھی دیکھا۔ لوگ کہہ رہے تھے، 'ہم اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ ہم ان جگہوں پر واپس جائیں گے جہاں ہم نسلوں سے رہ رہے ہیں اور ہم انہیں دوبارہ تعمیر کریں گے۔'
دوسری جانب حماس نے امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ سے متعلق حالیہ بیان کی مذمت کی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کو ’خریدنے اور اس کی ملکیت حاصل کرنے‘ سے متعلق تازہ ترین بیان کی مذمت کی ہے۔
تنظیم نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ ’فلسطینی عوام تمام جبری نقل مکانی کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔‘
یہ بیان ٹرمپ کے ریمارکس کے فوراً بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے ایک بار پھر ’غزہ کو خریدنے‘ کی بات کہی تھی۔