مسک کی ماڈل ماں بیٹے کے ’تاریک‘ خیالات کی کنجی

بظاہر مے مسک ایک گلیمرس معمر ماڈل ہیں لیکن ذرا گہرائی میں دیکھنے سے اس خاندان کے تاریک ماضی کا سراغ ملے گا جس میں نسلی امتیاز کا فروغ اور جمہوریت کا خاتمہ شامل ہے۔

سپیس ایکس اور ایکس کے سربراہ ایلون مسک اور ان کی والدہ، سپر ماڈل مے مسک، نیویارک میں 2 مئی 2022 کو میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ میں 2022 میٹ گالا میں شرکت کر رہے ہیں (اے ایف پی)

76 سالہ ماڈل، غذائی ماہر، مصنفہ اور دنیا کے امیر ترین شخص کی والدہ ہونے کے ناطے مے مسک کے لیے یہ ایک مصروف ہفتہ رہا۔

گذشتہ جمعے کو انہوں نے نیویارک فیشن ویک میں چینی برانڈ جوزوئی کے شو میں ایک چمکدار لباس اور سفید فر کوٹ میں ریمپ پر واک کی۔ برانڈ نے انہیں ’وقت سے ماورا خوبصورتی کی حقیقی مثال‘ قرار دیا۔

پھر اختتام ہفتہ، وہ میامی میں دھوپ میں دوپہر کے کھانے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں، ان کے ساتھ دو دیگر خواتین بھی تھیں، جن کا تعلق انتہائی طاقتور دائیں بازو کے مردوں سے ہے: ایوانکا ٹرمپ، جو امریکی صدر کی بیٹی ہیں اور وینڈی ڈینگ، جو روپرٹ مرڈوک کی سابقہ اہلیہ ہیں۔

مے مسک نے اس ملاقات کی تصویر انسٹاگرام پر شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’دو ذہین خواتین کے ساتھ خوشگوار دوپہر کا کھانا۔‘

بلاشبہ، ایک کامیاب ماڈل کے طور پر، جو 2022 میں 74 سال کی عمر میں سپورٹس السٹریٹڈ کے سرورق پر سوئمنگ سوٹ میں جلوہ گر ہو چکی ہیں اور اس حقیقت کو چھوڑ کر کہ وہ اس شخص کی ماں ہیں جو سالوں سے خبروں میں تقریباً اتنی ہی تیزی سے جگہ بنا رہا ہے جتنی تیزی سے دولت کما رہا ہے، ان کی شہرت کوئی نئی بات نہیں۔

وہ ایک ’سلور انفلوئنسر‘ کے طور پر اپنی پہچان پر فخر محسوس کرتی ہیں، اور نوجوان خواتین کے لیے باوقار بڑھاپے کی ایک مثال سمجھی جاتی ہیں، خصوصاً چین میں، جہاں وہ کافی وقت گزارتی ہیں اور جہاں ان کے مطابق ان کی 2019 کی کتاب آ وومن میکس آ پلان ایک کامیاب بیسٹ سیلر رہی ہے۔

تاہم، جب سے ان کا بیٹا ٹرمپ کا ’دوست‘ بنا ہے، مے مسک نے ایک بالکل مختلف انداز میں شہرت حاصل کی ہے۔ وہ خود کو ایک سابقہ ڈیموکریٹ قرار دیتی ہیں، لیکن جب انہیں محسوس ہوا کہ بائیڈن کی حکومت، ان کے بقول، ’بے ایمان اور بدنیت‘ ہے، تو انہوں نے بھی ایلون کی طرح ٹرمپ کی بھرپور حمایت شروع کر دی۔ اب وہ بھی ایلون کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی پُرجوش حمایتی بن چکی ہیں اور اپنے بیٹے کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ان کی حمایت میں سرگرم ہیں۔

لیکن اگرچہ وہ اپنے بارے ایک طویل عرصے تک ڈیموکریٹ رہنے کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر ان کے خاندانی پس منظر کا جائزہ لیے بغیر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ایلون، جو اب ٹیسلا کے ارب پتی مالک اور غیر سرکاری طور پر محکمہ حکومتی کارکردگی کے سربراہ بن چکے ہیں، کس طرح تیزی سے دائیں بازو کے سخت نظریات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

آپ کو ایلون کے خاندانی شجرے میں زیادہ دور نہیں جاتے، کہ آپ کو اس کی والدہ مے مسک کے والد، جوشوا ہالڈیمین، مل جاتے ہیں، جو کھل کر سفید فام برتری اور سازشی نظریات کے حامی تھے۔ اگرچہ وہ اس وقت انتقال کر گئے تھے جب ان کا نواسہ ایلون ابھی بچہ تھا، لیکن ان کے نظریات کی گونج ایلون کی حالیہ سرگرمیوں میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

یہ اقدامات یہودی اداروں سے محاذ آرائی (جیسے کہ انہوں نے ’ایکس‘ پر یہود دشمنی سے متعلق شکایات پر یہودی اینٹی ڈیفیمیشن لیگ پر مقدمہ کرنے کی دھمکی دی) سے لے کر گذشتہ ماہ جرمنی میں ایک دائیں بازو کی ریلی میں ’کثیر الثقافتی رجحان جو سب کچھ ماند کر دیتا ہے‘ جیسے خیالات کے اظہار تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ’ایکس‘ پر نسلی امتیاز پر مبنی ’گریٹ ریپلیسمنٹ‘ تھیوری کی حمایت کی اور اس گہرے یقین کا اظہار کیا کہ دنیا کو منتخب سیاستدانوں کے بجائے ٹیکنوکریٹس کے ذریعے چلایا جانا چاہیے۔

تو کیا مے اور ان کا خاندانی پس منظر ہی وہ کڑی ہے جو ان کے بیٹے کے ’ڈارک میگا‘ نظریات کو سمجھنے کا راستہ فراہم کرتی ہے، جیسا کہ وہ خود اسے بیان کرتے ہیں؟

مے کے والد ایک کینیڈین فارم میں پلے بڑھے اور بطور کاؤ بوائے، روڈیو پرفارمر اور کائروپریکٹر کام کرنے کے بعد سوشل کریڈٹ پارٹی کی نیشنل کونسل کے سربراہ بنے۔ اس قدامت پسند عوامی تحریک کے پہلے رہنما ایک یہود مخالف شخصیت تھے، جنہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ اقتدار میں ’یہودیوں کی غیر متناسب تعداد‘ کی وجہ سے ’ثقافتی نظریات میں بگاڑ‘ پیدا ہو رہا ہے۔

ہالڈیمین کینیڈا میں ٹیکنوکریسی تحریک کے سربراہ بھی تھے، جو ایک غیر جمہوری نظریے پر مبنی تھی، جس کے تحت حکومت سیاست دانوں کے بجائے غیر منتخب ٹیکنوکریٹس کے ذریعے چلائی جانی چاہیے۔

اس تحریک کے ارکان ایک جیسے سرمئی یونیفارم پہنتے اور ایک دوسرے کو یورپی فسطائیوں کے انداز میں سلام کرتے تھے۔ جب کینیڈا میں اس تحریک پر پابندی لگائی گئی، تو ہالڈیمین نے ایک اخباری اشتہار کے ذریعے اس کی حمایت کا اعلان کیا۔

مے اور ان کی جڑواں بہن کے، 1948 میں پیدا ہوئیں۔ وہ ہالڈیمین اور ان کی اہلیہ ونی فریڈ، جو ایک ڈانس ٹیچر تھیں، کے چار بچوں میں سے دو ہیں۔

یہ خاندان ہالڈیمین کے کامیاب کائروپریکٹک پریکٹس کی بدولت ایک آرام دہ زندگی گزار رہا تھا۔ ان کے پاس اپنا ایک چھوٹا طیارہ اور 20 کمروں پر مشتمل ایک وسیع گھر تھا۔ تاہم، ہالڈیمین کینیڈا کی آزاد خیالی سے نالاں تھے۔

ان کے خاندان کا نصب العین تھا: ’خطرہ مول لو، مگر احتیاط کے ساتھ۔‘ 1950 میں، انہوں نے جنوبی افریقہ ہجرت کی، جو اس وقت سفید فام نسل پرستی (اپارتھائیڈ) کے قیام کے عمل سے گزر رہا تھا۔ یہ وہ چیز تھی جس کی ایلون کے نانا نے شعوری طور پر حمایت کی تھی۔

دی اٹلانٹک میں شائع شدہ ایک مضمون میں، ہارورڈ یونیورسٹی کے نئیمین لیب کے ڈائریکٹر جوشوا بینٹن نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ ہالڈیمین سمجھتے ہیں کہ نسل پرست نظامِ حکومت رکھنے والا جنوبی افریقہ ’سفید فام عیسائی تہذیب‘ کی قیادت کرے گا، جو ’یہودی بینکاروں کی بین الاقوامی سازش‘ اور ان کے زیرِ کنٹرول ’رنگ برنگی اقوام کے گروہوں‘ کے خلاف برسرِ پیکار ہوگی۔

ہالڈیمین نے جنوبی افریقہ پہنچنے کے بعد ایک مقامی اخبار کو بتایا: ’حکومت کے رویے نے مجھے یہاں آنے سے روکنے کے بجائے، اس کے بالکل برعکس اثر ڈالا، اس نے مجھے یہاں آ کر بسنے کی ترغیب دی۔‘

ایک اور موقع پر، انہوں نے کہا کہ سیاہ فام افریقی ’انتہائی پسماندہ ہیں اور انہیں سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔‘

ہالڈیمین نے خود کئی کتابیں شائع کیں، جن میں ایک دی انٹرنیشنل کنسپریسی اِن ہیلتھ (صحت میں بین الاقوامی سازش) تھی، جس میں انہوں نے ویکسینز اور پانی میں فلورائیڈ کے استعمال کی شدید مخالفت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب ایک ’سازش کے برین واشنگ پروگرام‘ کا حصہ ہے، ایک ایسا جملہ جو حیرت انگیز حد تک ایلون مسک کے اس دعوے سے مشابہت رکھتا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ ان کی علیحدہ شدہ بیٹی ویوین کی جنس تبدیل کرنے کے فیصلے کے پیچھے ’ووک مائنڈ وائرس‘ (انتہائی ترقی پسند خیالات کا وائرس) کارفرما ہے۔

مے نے اسی ماحول میں پرورش پاتے ہوئے 15 سال کی عمر میں ماڈلنگ کا آغاز کیا اور 1969 میں مس ساؤتھ افریقہ کے مقابلے میں فائنلسٹ رہیں۔

1970 میں انہوں نے ایرول مسک سے شادی کی، جو ایک جنوبی افریقی انجینیئر تھے اور انہیں ہائی سکول میں ملے تھے۔ اس جوڑے کے تین بچے ہوئے: ایلون، اس کا بھائی کمبل، جو اب ایک ریسٹورنٹ چین چلاتے ہیں اور بیٹی توسکا، جو ایک فلم ساز ہیں اور ’پیشن فلکس‘ کے نام سے ایک رومانس سٹریمنگ سروس چلاتی ہیں۔

مے اور ایرول کی شادی ختم ہوگئی اور 1979 میں دونوں میں طلاق ہوگئی۔ ایک سنگل ماں کے طور پر، مے بالآخر کینیڈا منتقل ہوگئیں جب ایلون نو سال کے تھے۔ اس سے قبل، ایلون نے جنوبی افریقہ میں اپنے ابتدائی سال ایک ایسے سماجی نظام میں گزارے جہاں نسل پرستی اپنی انتہا پر تھی، سکولوں میں مسیحی قوم پرست نظریات پر مبنی تاریخ پڑھائی جاتی تھی اور سیاسی ماحول مزید جابرانہ ہوتا جا رہا تھا، یہاں تک کہ نیو نازی ’افریکانر ریزسٹنس موومنٹ‘ نسل پرستی کے خاتمے کے کسی بھی اقدام کے خلاف احتجاج میں مارچ کر رہی تھی۔

کینیڈا میں، مے نے نیوٹریشن اور ڈائیٹیٹکس میں ڈگریاں حاصل کیں اور خود کام شروع کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ بطور ماں زیادہ سخت گیر نہیں تھیں، جیسا کہ ان کے اپنے والدین بھی نہیں تھے اور انہوں نے اپنے بچوں کو آزادی دی۔ ان کے تمام بچوں نے ان کے گھر سے چلائے جانے والے کاروبار میں مدد کی، جس سے انہیں ایک ابھرتی ہوئی کاروباری شخصیت کے طور پر عملی تربیت حاصل ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماں اور بیٹے کے درمیان غیر معمولی قربت ہے۔ ایلون نے گذشتہ اکتوبر میں مے کو جذباتی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ’وہ پہلے دن سے میری سب سے بڑی حمایتی رہی ہیں، چاہے میرے خیالات کتنے ہی عجیب کیوں نہ لگیں۔‘

مے کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلی بار اپنے بیٹے کی غیر معمولی ذہانت اس وقت محسوس کی جب وہ تین سال کے تھے، کیونکہ ’اس کی دلیلیں منطقی ہوتی تھیں۔‘ وہ اس بات کو توہین آمیز سمجھتی ہیں جب لوگ ایلون کو صرف ’امیر‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے: ’میرے خیال میں وہ دنیا کا سب سے بڑا جینیئس ہے اور لوگ اسی لیے اس سے محبت کرتے ہیں!‘

اپنے 60 کے پیٹے میں اختتام پر، مے نے اپنے قدرتی چمکدار چاندی جیسے بالوں کے ساتھ ماڈلنگ میں غیر متوقع طور پر شہرت حاصل کر لی۔ فیشن کی دلدادہ کے طور پر، وہ اس بات پر خوش ہیں کہ میلانیہ ٹرمپ ’وہائٹ ہاؤس میں دوبارہ خوبصورتی اور نفاست لا رہی ہیں۔‘

جہاں بھی ایلون جاتے ہیں، مے کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ وہ ٹرمپ خاندان کی تھینکس گیونگ اور مار آ لاگو میں نیو ایئر کی شام پارٹیوں میں شریک ہو چکی ہیں۔ پہلی تقریب میں، انہوں نے ٹرمپ کے بیٹے بیرن سے بین السیارتی نوآبادیات پر گفتگو کی، جہاں انہوں نے یہ سیکھا کہ ’مریخ ایک نئی تہذیب کے آغاز کے لیے بہترین جگہ ہے۔‘

76 سال کی عمر میں، مے مسک اپنے بیٹے کو وہی بنتے دیکھ رہی ہیں جو ان کے والد دیکھنا چاہتے تھے: حکومت کے مرکز میں ایک غیر منتخب ’ماہر‘ جو ایسے فیصلے کر رہا ہے جو لاکھوں زندگیوں کو متاثر کریں گے۔ ان کے بیٹے میں، ان کے والد کا غیر جمہوری وژن حقیقت بنتا جا رہا ہے کہ دنیا کو کس طرح چلایا جانا چاہیے۔

چین میں مے مسک کی نمایاں حیثیت بھی اہم ہے، جہاں ان کے بیٹے کو بے حد مقبولیت حاصل ہے۔ بعض تجزیہ کاروں نے انہیں ایلون کے لیے ’خفیہ ہتھیار‘ قرار دیا ہے، جو ایک ایسی شخصیت ہیں جو ان کے کاروباری اور سیاسی عزائم کے لیے خیر سگالی پیدا کر رہی ہیں۔

اگرچہ مے نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ’ایلون پر مکمل اعتماد کر سکتے ہیں‘ کیونکہ ان کے ’کوئی خفیہ عزائم نہیں‘، لیکن بعض مبصرین اس دعوے کو مشکوک قرار دیتے ہیں۔

ٹیسلا کی سب سے بڑی فیکٹری شنگھائی میں واقع ہے اور بعض حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ ایلون بیک وقت دو طاقتوں کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں۔

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی مہم، جس کا مقصد حکومتی اخراجات میں کمی اور غیر ملکی امداد میں کٹوتی ہے، درحقیقت چین کے لیے فائدہ مند جبکہ امریکہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

روس میں سابق امریکی سفیر مائیکل میک فاؤل نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ابتدائی اقدامات، جن میں سے بیشتر ایلون مسک کی قیادت میں کیے جا رہے ہیں ’براہ راست امریکہ کی اپنے سب سے بڑے جغرافیائی حریف کے ساتھ مسابقت کی صلاحیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’چینی صدر شی جن پنگ اپنی خارجہ امداد کو ختم نہیں کر رہے، بلکہ اس کے برعکس، وہ مزید امداد، تجارت اور سرمایہ کاری کی پیشکش کر رہے ہیں۔‘

ایلون کے والد ایرول نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ مے کے خاندان کے نظریات نے ان کے بیٹے کی سیاسی سوچ پر کوئی اثر ڈالا۔

ان کا کہنا ہے کہ ایلون نے اپنے بچپن میں انتخابی مہمات میں حصہ لیا تھا، جب ایرول ایک اینٹی اپارتھائیڈ پارٹی کے امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے تھے۔

تاہم، اینٹی اپارتھائیڈ سرگرمیوں کا ایلون کے اُس عمل سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا جب انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری کے دوران ایسا اشارہ کیا جو کئی لوگوں کو نازی سلیوٹ جیسا محسوس ہوا۔

مے بھی اس تقریب میں شریک تھیں، ایک استقبالیہ میں انہوں نے سرخ لباس زیب تن کر رکھا تھا، اور ایک اور موقع پر وہ ٹرمپ کے نامزد وزیرِ صحت، اینٹی ویکس اور اینٹی اسقاطِ حمل رہنما رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کے ساتھ تصویر کھنچواتی نظر آئیں۔

اس واقعے کے بعد سے مے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر روزانہ سینکڑوں نفرت انگیز تبصرے موصول ہو رہے ہیں، جن میں انہیں نازی قرار دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے اپنے بیٹے سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان خبروں کے خلاف مقدمہ دائر کریں جنہوں نے ایلون کے سلامی دینے کے انداز پر رپورٹنگ کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مے پر ہونے والی اس تنقید کا انکشاف ان کی یہودی منیجر، اینا شرمین کے ایک پوسٹ کے ذریعے ہوا۔

یقیناً، نہ تو ایلون اور نہ ہی مے اپنے خاندان کے بزرگ جوشوا ہالڈیمین کے نظریات کے براہِ راست ذمہ دار ہیں، لیکن جیسے جیسے ان کے اپنے خیالات دائیں بازو کی طرف جھکاؤ اختیار کر رہے ہیں، مے کے بچپن کے اثرات کی بازگشت مزید نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ