انڈین حکومت نے قابل تجدید توانائی پارک کی تعمیر میں سہولت فراہم کرنے کی غرض سے پاکستان کی سرحد کے قریب سکیورٹی پروٹوکول میں نرمی کی ہے جس پر حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس حکومتی فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیا ہے۔
یہ منصوبہ اڈانی گروپ کو الاٹ کیا گیا ہے اور دی گارڈین کے مطابق سرکاری دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس فیصلے نے قومی سلامتی اور حکومت کی طرف سے اس بڑے تجارتی گروپ کو ممکنہ طور پر نوازنے سے متعلق خدشات کو جنم دیا ہے۔
انڈیا کے انگریزی اخبار ’دا ہندو‘ کی رپورٹ کے مطابق اڈانی گروپ کو وزیر اعظم نریندر مودی کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے اور اس تعلق پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
کھاوڈا قابل تجدید توانائی کا منصوبہ، جو ریاست گجرات کے رَن کچھ کے علاقے میں واقع ہے، ایک وسیع پیمانے پر شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے۔
ابتدائی طور پر قومی دفاعی پروٹوکول کے تحت پاکستان کی سرحد سے 10 کلومیٹر کے اندر کسی بھی بڑی تعمیرات کی اجازت نہیں تھی۔ تاہم، خفیہ سرکاری دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ گجرات حکومت نے اس علاقے میں قابل تجدید توانائی کے منصوبے کی اجازت کے لیے پروٹوکول میں نرمی کی درخواست کی۔
اس حوالے سے اپریل 2023 میں دہلی میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بلایا گیا جس میں سینیئر فوجی افسران نے اس منصوبے کے دفاعی آپریشنز پر ممکنہ اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔
ان خدشات کے باوجود انڈین وزارت دفاع نے اتفاق رائے سے پاکستان کی سرحد کے ایک کلومیٹر کے اندر شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کی اجازت دے دی۔
مئی 2023 میں مودی حکومت نے اس فیصلے کو باضابطہ طور پر منظور کر لیا اور اس کا اطلاق نہ صرف انڈیا پاکستان سرحد پر کیا گیا بلکہ بنگلہ دیش، چین، میانمار اور نیپال سے متصل سرحدی علاقوں پر بھی کیا گیا۔ اس سے انڈیا کی سرحدی حکمت عملی میں نمایاں تبدیلی واقع ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فوجی ماہرین اور سینیئر افسران نے اس پالیسی میں تبدیلی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
انڈین فوج کے ریٹائرڈ کرنل اور دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا نے اس فیصلے کو ’سٹریٹجک طور پر ناعاقبت اندیشی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فوج کے دفاعی فرائض میں اضافہ کرتا ہے جبکہ اس کا فائدہ ایک نجی تجارتی گروپ کو پہنچے گا۔
موجودہ فوجی افسران نے بھی دشمن کے ممکنہ حملوں کے خطرات کے پیش نظر سرحد کے قریب دفاعی اقدامات، جیسے بارودی سرنگوں اور اینٹی ٹینک نظام کے نفاذ میں مشکلات پر سوالات اٹھائے ہیں۔
اپریل 2023 کے اجلاس کے وقت، اس منصوبے کے لیے مختص زمین سرکاری ادارے سولر انرجی کارپوریشن آف انڈیا (ایس ای سی آئی) کے پاس تھی تاہم جب سکیورٹی پروٹوکول میں نرمی کی گئی تو ایس ای سی آئی کو مئی 2023 میں وزیر برائے قابل تجدید توانائی آر کے سنگھ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں زمین چھوڑنے پر آمادہ کیا گیا۔
اگست تک، یہ زمین اڈانی گروپ کے حوالے کر دی گئی جس سے اس کی کمرشل ویلیو میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اس فیصلے نے مودی حکومت پر اپنے قریبی ساتھی اڈانی کو فائدہ پہنچانے کے الزامات کو مزید تقویت دی۔
انڈین اخبار دی ہندو کے مطابق دی گارڈین کی تحقیقات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس حکومتی فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیا ہے۔
کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے مودی حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی کو کمزور کر کے اڈانی کو فائدہ پہنچایا۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ سرحدی سلامتی میں نرمی کا اطلاق انڈیا کی کئی بین الاقوامی سرحدوں پر کیا گیا ہے، جو کہ سٹریٹجک مفادات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ کانگریس کے دیگر رہنماؤں کے سی وینوگوپال اور پرینکا گاندھی واڈرا نے بھی اس فیصلے پر وضاحت کے لیے وزیر اعظم اور وزیر دفاع سے سوالات کیے ہیں۔
کانگریس رہنماؤں نے فوجی ماہرین کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دفاعی حکمت عملی کے مطابق سرحد کے قریب کسی نجی منصوبے کی تعمیر نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اس سے فوج کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگا۔ حزب اختلاف نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ قومی سلامتی کو پس پشت ڈال کر اپنے قریبی سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچا رہی ہے، اور اس سے قبل بھی اڈانی کو نوازنے کے متعدد الزامات لگ چکے ہیں۔
دی گارڈین اخبار کے مطابق اڈانی گروپ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کھاوڈا منصوبے کے لیے تمام سرکاری قوانین اور ضوابط پر مکمل عمل کیا گیا ہے اور ضروری منظوری حاصل کی گئی ہے۔
کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ زمین کی الاٹمنٹ پالیسی کے مطابق ہوئی اور اڈانی گرین انرجی انڈیا کی سب سے بڑی قابل تجدید توانائی کمپنی ہونے کے ناطے اس کی حق دار تھی۔ تاہم، مودی حکومت نے اس تنازع پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔
اس کے علاوہ، اڈانی ایک علیحدہ قانونی تنازع میں بھی گھرے ہوئے ہیں۔ نومبر 2024 میں، امریکی حکومت نے اڈانی گروپ پر الزام عائد کیا کہ اس نے انڈین حکام کو 26 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی رشوت دی تاکہ کھاوڈا سمیت مختلف سولر انرجی منصوبوں کے لیے منافع بخش معاہدے حاصل کیے جا سکیں۔
اڈانی گروپ نے ان الزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دے کر قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم، بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے اڈانی گروپ سے فاصلہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے، اور فرانسیسی کمپنی ٹوٹل انرجیز نے اس کے قابل تجدید توانائی منصوبوں میں سرمایہ کاری معطل کر دی ہے۔
کھاوڈا منصوبے سے متعلق تنازع نے انڈیا میں کاروبار اور سیاست کے باہمی تعلق پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ دی ہندو اخبار کے مطابق حزب اختلاف کے رہنماؤں نے اس معاملے کی مزید تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے، ان کا مؤقف ہے کہ قومی سلامتی کو کسی بھی صورت میں تجارتی مفادات پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔