پبلک ٹرانسپورٹ کسی بھی ملک کے شہریوں کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر سابق حکومت نے پنجاب میں بہتر پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بنانے پر خصوصی توجہ دی لیکن موجودہ دور میں پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے شہریوں کو پہلے سے دستیاب پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت کو بھی کم کیا جا رہا ہے۔
لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی (ایل ٹی سی) نے تین مزید اربن روٹس بند کر دیے ہیں۔ اس سے پہلے کُل 19 روٹس پر پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب تھ، جن میں 16 روٹس بند ہوچکے ہیں۔ ایل ٹی سی کی جانب سے حال ہی میں بند کیے جانے والے روٹس میں بی 8 جنرل بس سٹینڈ تا ایئرپورٹ، بی 12 اے جنرل بس سٹینڈ تا آر اے بازار، بی 19 نیازی چوک تا گرین ٹاؤن شامل ہیں۔
سوا کروڑ آبادی کے شہر لاہور میں اربن روٹس پر ایل ٹی سی کی بسوں کی تعداد صرف 65 رہ گئی جبکہ 285 بسیں ناکارہ ہونے کے باعث گراؤنڈ کر دی گئی ہیں۔
بسیں بند ہونے پر شہریوں کے مسائل:
لاہور کے علاقے گڑھی شاہو کی رہائشی بیوہ خاتون عاصمہ نعیم نے بتایا کہ وہ بی 12روٹ سے سفر کرنے کے لیے بس سٹاپ پہنچیں تو ایک گھنٹہ انتظار کے بعد بھی بس نہ آئی جس سے وہ ان دنوں سفر کرکے 20 روپے میں سروسز ہسپتال جاتی ہیں، جہاں ان کی والدہ گردوں کی بیماری کے باعث داخل ہیں۔ تاہم انہیں بس نہ ملنے کی صورت میں دو سو روپے میں مجبوراً رکشہ سے ہسپتال جانا پڑا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی دو بیٹیاں ہیں، خاوند فوت ہوچکے ہیں اور ان کا کوئی بھائی نہیں اس لیے والدہ کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی ایک بیٹی پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس جاتی ہیں اور اسی روٹ سے سفر کرتی ہیں کیونکہ اس مقام پر یونیورسٹی کی بس نہیں آتی۔
عاصمہ نعیم نے بتایا کہ وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر گھر کا خرچ چلاتی ہیں۔ ہسپتالوں میں ٹیسٹ مہنگے ہوگئے، ادویات کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں اور اب روٹ بند ہونے سے سفری اخراجات بھی بڑھ چکے ہیں۔ یہ مشکل صرف ان خاتون کی نہیں بلکہ ہزاروں شہری مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرانسپورٹر احمد خان کے مطابق تمام بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات کم ہونے سے ہر طرف گاڑیوں اور رکشوں کا رش لگا رہتا ہے اور پیٹرول کا ضیاع الگ ہوتا ہے، لہذا سڑکوں پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے بہترین ٹرانسپورٹ سسٹم ضروری ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسی صورتحال میں ٹرانسپورٹرز کا کاروبار تو خوب چلتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’بے شک سرکاری ٹرانسپورٹ کم ہونے سے پرائیوٹ گاڑیوں پر مسافر زیادہ سفر کرتے ہیں لیکن اب پیٹرول، ڈیزل اور گاڑیوں کی قیمتیں زیادہ ہونے پر کرایہ بھی زیادہ ہوتا ہے لہذا مسافر تھوڑے مزید پیسے ملا کر رکشہ چنگچی یا اوبر، کریم کی موٹر سائیکل اور گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
روٹ بند ہونے کی وجہ کیا ہے؟
ترجمان لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی ناصر حسین کے مطابق 2012 میں چین سے منگوائی گئی 262 بسوں میں سے اب روٹس پر صرف 100 چل رہی ہیں جبکہ 162 کے قریب ناکارہ ہوچکی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بسوں کی قلت کے باعث تین روٹ منسوخ کرنا پڑے لیکن عوامی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی وزارت ٹرانسپورٹ کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا گیا ہے کہ لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کو فوری نئی بسیں درکار ہیں۔
ان کے خیال میں پبلک ٹرانسپورٹ کی اشد ضرورت ہے لہذا بسوں کے آتے ہی منسوخ ہونے والے روٹس بحال کر دیے جائیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر صورت حال یہی رہی تو باقی روٹس کیسے چل سکتے ہیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ’اس بارے میں تمام معلومات متعلقہ محکموں کو بھجوا دی گئی ہیں، امید ہے جلد ہی کوئی پیش رفت ہوگی۔‘
سابق اور موجودہ حکومت کی ٹرانسپورٹ پالیسی:
سابق حکومت نے 2013 میں میٹرو بس سروس شروع کی جس کے لیے 47 بسیں ترکی سے درآمد کی گئیں اور گجومتہ سے شاہدرہ تک 27 کلومیٹر خصوصی روٹ بنایا گیا۔ مختلف سٹیشنوں سے ان بسوں پر سفر کرنے کے لیے جدید سہولیات فراہم کی گئیں اور ایک سٹاپ سے دوسرے تک صرف 20 روپے کرایہ رکھا گیا۔ سابق حکومت نے اس منصوبے پر27 ارب روپے لاگت کا دعویٰ کیا تھا جبکہ گذشتہ دور حکومت میں ہی اورنج لائن ٹرین کی تعمیر شروع کی گئی، جس پر حکومتی رپورٹ کے مطابق اب تک ایک ارب 22 کروڑ ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کے مطابق ریپڈ ٹرانزٹ ٹرین (اورنج لائن) منصوبے کے تحت 27.1 کلومیٹر ٹریک تعمیر کیا گیا اور جدید انجن اور بوگیاں چین سے منگوائی گئیں۔ ان کے مطابق یہ منصوبہ سی پیک کے تحت چین کے تعاون سے بنایا جا رہا ہے لیکن دو سالہ عدالتی حکم امتناعی کے باعث یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔
سابقہ دور حکومت میں حکام کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ میٹرو بس سروس اور اورنج لائن ٹرین کے ذریعے لاہور شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام عالمی معیار کے مطابق بنایا جانا تھا۔ اس مقصد کے لیے دور دراز علاقوں سے میٹرو بس سٹیشنوں تک مسافروں کو لانے کے لیے سپیڈو بسیں بھی چلائی گئی تھیں جن پر کارڈ کے ذریعے سفر کی سہولت دی گئی تھی۔ لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کو بھی 2012 میں چین سے درآمد کی گئی 262 بسیں فراہم کی گئیں تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علیم خان نے پنجاب کا سینیئر وزیر بنتے ہی اعلان کیا تھا کہ اورنج لائن ٹرین منصوبہ سی پیک کا حصہ ہونے کی وجہ سے بند نہیں کیا جائے گا لیکن اس سے عوام یا حکومت کو کوئی فائدہ نہیں جبکہ میٹرو بس سروس پر سبسڈی ختم کی جائے گی۔
بعد ازاں میٹرو بس کے کرایوں میں فی سٹاپ دس روپے اضافہ کر کے 20 روپے سے 30 کر دیا گیا۔ اسی طرح میٹرو بس تک پہنچانے والے رابطہ روٹس پر چلائی گئی سپیڈو بسیں بھی اب کارڈ کے بغیر نقد کرائے اور عام روٹس پر چلائی جا رہی ہیں جبکہ 12 سپیڈو بسیں حکومت نے چند ماہ پہلے لاہور سے نکال کر لودھراں میں بھجوائی تھیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق چین سے نئی بسیں خریدنے کا معاہدہ پانچ سال مکمل ہونے پر ختم ہوچکا ہے اور اسے بحال نہیں رکھا گیا لہذا اب اگر نئی بسیں منگوانا ہوں گی تو نیا معاہدہ کرنا پڑے گا، جس کی موجودہ معاشی صورتحال میں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ حکومت نے وسائل کا رخ لاہور کی بجائے جنوبی پنجاب کی طرف موڑنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔
واضح رہے کہ حکمران جماعت کو پشاور میں بی آر ٹی منصوبے میں تاخیر پر بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔