ہم اکثر ہی اپنے دوستوں کو کسی گرما گرم واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے بار بار کہتے ہیں کہ بات پیسوں کی نہیں بلکہ فلاں فلاں قدر کی ہے۔ مجھے اس لیے غصہ نہیں آیا کہ میرے پیسے خرچ ہوئے، بلکہ غصہ اس لیے آیا کہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا اور دھوکہ دیا گیا۔
اصل میں بات پیسوں کی ہی ہوتی ہے۔ ہم بس دوسروں کے سامنے اپنا جھوٹا تاثر قائم رکھنے کے لیے مان نہیں رہے ہوتے۔
تصور کریں کہ آپ نے دفتر کے کام سے کہیں جانا ہے۔ اصولاً آپ کے دفتر کو آپ کو لانے لے جانے کی ذمہ داری اٹھانا چاہیے لیکن آپ کو اپنے دفتر کی طرف سے ایسی کوئی سہولت نہیں ملی۔
آپ وہ کام اپنے خرچ پر ہی کر آتے ہیں۔ آپ کو اس خرچ کا احساس بھی ہے اور وہ خرچ برا بھی لگ رہا ہے لیکن آپ اپنے یہ احساسات کسی کے سامنے دہرا نہیں سکتے۔
اگر آپ کسی سے اس بارے بات کرتے ہیں تو بار بار یہی جملہ دہراتے ہیں کہ بات پیسوں کی نہیں ہے۔ بات اس فلاں قدر کی ہے۔ اصل میں چاہے آپ خود بھی اس قدر کی قدر نہ کرتے ہوں۔
ہمیں بچپن سے ہی پیسوں کے ساتھ ایک عجیب رشتے میں منسلک کیا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پیسہ بہت اہم ہے۔ یہ ہماری زندگی چلانے کے لیے ضروری ہے۔ ہمیں پڑھنا ہے، لکھنا ہے تاکہ ہم پیسے کمانے کے قابل ہو سکیں۔ اتنے پیسے جن سے ہماری، ہمارے والدین اور ہمارے بہن بھائیوں کی تمام بھولی بسری خواہشات پوری ہو سکیں۔
ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پیسہ برا ہے۔ اس کے پیچھے بھاگنے والے لالچی ہوتے ہیں۔ وہ پیسے کی خاطر کبھی بھی کسی کو بھی دھوکہ دے سکتے ہیں۔ وہ اخلاقی طور پر زوال کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کی طرح لالچی، دھوکے باز، مطلبی اور برا نہیں بننا چاہیے۔
میڈیا اس سبق کو مزید پکا کرتا ہے۔ ہماری فلمیں، ڈرامے، کتابیں، میگزین، اخبار امیروں کو برا اور غریبوں کو اچھا دکھاتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا سکالرز نے اچھی اور بری عورت کے تصور پر بہت کام کیا ہے۔ ان کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ میڈیا امیر عورت کو برا اور غریب عورت کو اچھا دکھاتا ہے۔ امیر عورت مغربی لباس پہنتی ہے، نوکری یا کاروبار کرتی ہے، رسم و رواج اور روایات کی پیروی نہیں کرتی، اپنی مرضی چلاتی ہے اور آخر میں نقصان اٹھاتی ہے۔
دوسری طرف غریب عورت مشرقی لباس پہنتی ہے، سادہ زندگی گزارتی ہے، کسی کے سامنے اُف تک نہیں کرتی اور آخر میں اس کے ساتھ سب اچھا ہوتا ہے۔
بعض ڈراموں میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ جو خواتین پیسے کی فراوانی اور آسائش کی خواہش کرتی ہیں وہ آخر میں ذلیل و رسوا ہی ہوتی ہیں۔
یہ بیانہ اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ ہم پیسے کمانے والوں کو برا سمجھتے ہیں اور خود پیسے کی خواہش رکھنے کے باوجود اس خواہش کو تسلیم نہیں کرتے۔
میرے ایک دوست ہیں۔ ان سے جب کوئی کہتا ہے کہ وہ بہت پیسے کماتے ہیں تو وہ آگے سے ماشاءاللہ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جواب میں ’نہیں نہیں، اتنے پیسے بھی نہیں کماتا، بس گزارا ہو جاتا ہے‘ جیسی باتیں کرنا آنے والے پیسے کی نا شکری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زیادہ تر لوگ ایسے نہیں سوچتے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ کسی کے سامنے پیسے کمانے یا پیسوں کے ہونے کا اعتراف کر کے ہم مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ دوسرے فوراً ہم سے ادھار مانگنے لگیں گے اور پھر ہم مشکل میں آ جائیں گے۔
پیسوں کے حوالے سے ہمارے یہ رویے بری معیشت سے جڑے ہوئے ہیں۔ جن ممالک میں پیسے کی قدر زیادہ ہے وہاں لوگ ایک ایک پیسے کو اہم سمجھتے ہیں۔ وہاں کوئی انسان کسی دوسرے کی وجہ سے پیسے نہیں خرچتا اور اگر کبھی ایسا کوئی موقع آئے تو اصولوں کے مطابق اس خرچ کی واپسی کا عمل شروع کرواتا ہے۔
ہمارے ہاں کوئی ایسے کرے تو ہم اسے گھٹیا سمجھتے ہیں اور اکثر ہی اسے اپنے طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔
پیسے کی اہمیت جھٹلائی نہیں جا سکتی۔ ہماری زندگی پیسے کے بغیر نہیں چل سکتی۔ ہمیں زندہ رہنے کے لیے، روزمرہ زندگی گزارنے کے لیے حتیٰ کہ مرنے کے لیے اور مرنے کے بعد اپنی آخری قیام گاہ کو قائم رکھنے کے لیے بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
حکومت نے پچھلے کچھ عرصے میں عوام پر ٹیکس کا بھاری بھر کم بوجھ ڈالا ہے۔ عوام پہلے ہی روزگار کے مسائل کا شکار ہیں۔ نوکریاں ناکافی ہیں، جو ہیں ان کے عوض تنخواہ کافی نہیں مل رہی، کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں۔ اب تک ایک گھر کے اخراجات ایک یا دو لوگ پورے کر رہے ہیں۔ ایسے میں کسی کی جیب سے بغیر کسی وجہ کے چند سو یا چند ہزار نکل جانا اس کے لیے عام بات نہیں ہے۔
ان پیسوں کا نکلنا کسی نہ کسی انتظامی یا سماجی مسئلے سے جڑا ہے۔ ہمیں اس مسئلے پر بات کرنا چاہیے اور اس کا حل نکالنا چاہیے تاکہ ہم کھل کر اپنے پیسوں کی قدر کر سکیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔