سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں مزید دو فیصد کمی کا اعلان کیا ہے، جو 15 فیصد سے کم ہو کر 13 فیصد تک آ گئی ہے۔ سات ماہ میں مسلسل پانچویں مرتبہ شرح سود میں کمی کی گئی ہے اور مستقبل میں مزید کمی کی توقع کی جا رہی ہے۔
شرح سود کم ہونے سے حکومت پر قرضوں اور سود کی ادائیگی کا بوجھ فوری کم ہو جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس سے تقریباً 1300 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔
رواں مالی سال کے لیے سود کا ہدف نو ہزار آٹھ سو ارب روپے تھا جو تقریباً 18 فیصد شرح سود کے حساب سے بنایا گیا تھا، لیکن شرح سود میں تاریخی کمی کے بعد سود کا خرچ ساڑھے آٹھ ہزار ارب روپے تک ہو سکتا ہے۔ حکومت اسے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شرح سود کم ہونے سے عام آدمی کی معاشی حالت بھی بدلے گی؟
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شرح سود کم ہونے کا فائدہ عام آدمی کو اس وقت ہو گا جب افراط زر آج کے ریٹ پر مستحکم رہے۔ اس وقت افراط زر تقریباً پانچ فیصد ہے۔ اس کا برقرار رہنا مشکل ہے۔ اگلے چند ماہ اہم ہیں۔ مارچ میں آئی ایم ایف کا جائزہ مشن پاکستان آ رہا ہے۔ ایکسچینج ریٹ میں اضافہ نہ کرنا اور افراط زر بھی نہ بڑھانا شاید آئی ایم ایف کو قابل قبول نہ ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ابوزر شاد کہتے ہیں کہ شرح سود کم ہونے کا مثبت اثر عام آدمی تک پہنچنے میں کم از کم تین ماہ لگ سکتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’حکومت کا شرح سود 22 سے 13 فیصد پر لانا بڑی کامیابی ہے۔ شرح سود اگر 11 فیصد پر آ جائے تو یہ آئیڈیل ہے۔ تین فیصد بینک بھی لیتا ہے۔ 14 یا 15 فیصد پر کاروبار آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف بزنس کمیونٹی بلکہ عام آدمی کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں تقریباً 45 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔ کاروبار بڑھے گا تو بے روزگاری میں کمی آئے گی۔‘
دوسری جانب کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ سمجھتے ہیں کہ ’شرح سود کم ہونے سے کرنسی کے آفیشل کاروبار پر فرق نہیں پڑے گا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’قوانین اتنے سخت کر دیے گئے ہیں کہ عام آدمی قانونی دائرے میں رہ کر کرنسی میں سرمایہ کاری نہیں کر سکتا، لیکن گرے مارکیٹ میں ڈالرائزیشن ہو سکتی ہے جس سے ڈالر کا ریٹ بڑھ سکتا ہے۔ عام آدمی کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہوتے۔ گولڈ، سٹاک ایکسچینج، کرنسی اور ریئل سٹیٹ آسان آپشنز ہوتے ہیں۔ شرح سود کم ہونے سے عام آدمی ان سیکٹرز سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘
عام آدمی کو غربت سے نکالنے کے لیے شرح نمو چھ سے سات فیصد ہونی چاہیے اور اسے تقریباً 10 سال تک برقرار رکھنا ہو گا، بصورت دیگر صرف موسمی سرمایہ کار ہی کم شرح سود سے مستفید ہوں گے: ظفر پراچہ
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شرح سود کم ہونے سے عام آدمی کی معاشی حالت پر فوری طور پر مثبت اثرات نہیں آتے بلکہ منفی اثرات آنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ جو لوگ بینکوں میں پیسہ جمع کروا کر سود یا منافع حاصل کر رہے ہوتے ہیں، اس میں فوراً کمی آ جاتی ہے، جس سے ان کی آمدن کم ہوجاتی ہے۔ ان میں اکثریت خواتین اور بوڑھے لوگوں کی ہے، جن کے پاس دیگر ذرائع سے آمدن حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق: ’شرح سود کم ہونے سے عام آدمی کاروبار کرنے پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ کاروبار کے لیے قرض بھی کم شرح سود پر مل جاتا ہے، لیکن موجودہ حالات میں کم شرح سود پر قرض حاصل کرنے کے بعد بھی بڑا مسئلہ بجلی اور گیس کی قیمتیں ہیں، جو سارا منافع کھا جاتی ہیں۔ ممکن ہے کہ عام آدمی کے لیے گاڑی اور گھر خریدنے کے لیے سستے قرض مل جائیں لیکن اس سے معیشت کا پہیہ نہیں چلے گا۔ معاشی جمود کو توڑنے کے لیے برآمدات بڑھانا ضروری ہیں اور اسے بڑھانے کے لیے شرح سود کم کرنے کے ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی مستقل کمی لانا ضروری ہے۔‘
بقول ظفر پراچہ: ’عام آدمی کو غربت سے نکالنے کے لیے شرح نمو چھ سے سات فیصد ہونی چاہیے اور اسے تقریباً دس سال تک برقرار رکھنا ہو گا، بصورت دیگر صرف موسمی سرمایہ کار ہی کم شرح سود سے مستفید ہوں گے۔ فی الحال شرح نمو زیادہ سے زیادہ تین فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔‘
عارف حبیب لمیٹڈ کی ہیڈ آف ریسرچ ثنا توفیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شرح سود کم ہونے سے براہ راست اور فوری فائدہ کاروباری طبقے کو پہنچتا ہے۔ شرح سود زیادہ ہونے سے بینکوں سے منافع کمانے والے متاثر تو ہوتے ہیں لیکن کاروباری ایکٹیوٹی کم ہو جانے سے جو بےروزگاری بڑھتی ہے اس کے معیشت پر زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
’پاکستان میں بےروزگار افراد کی تعداد بینکوں میں پیسہ رکھ کر منافع کمانے والوں سے زیادہ ہے۔ شرح سود کم ہونے سے جب کاروباری ایکٹویٹی بڑھتی ہے تو ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں، جس سے عام آدمی کی حالت بہتر ہوتی ہے، لیکن اس کے نتائج سامنے آنے میں وقت لگتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سٹیٹ بینک آف پاکستان کے کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس کے مطابق عوام یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں مہنگائی بڑھے گی اور شرح سود میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
ثنا توفیق کے مطابق: ’اپریل کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے جو تقریباً نو فیصد تک جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ پی ڈی ایل میں متوقع اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگنے کی بھی بازگشت ہے۔ اپریل 2024 میں مہنگائی تقریباً 38 فیصد تھی، اپریل 2025 میں اس کا بیس افیکٹ بھی آئے گا۔ بجٹ 2025 بھی مہنگائی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مہنگائی کم ہونے کی وجہ ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق بھی ہے۔ پچھلے سالوں میں عوام کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔ شرح سود کم ہونے سے معاشی ایکٹیوٹی بڑھنے کی صورت میں ڈیمانڈ میں اضافہ ہو سکتا ہے اور مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔ شرح سود 12 فیصد سے نیچے آنا مشکل ہے، یعنی اس کے سنگل ڈیجٹ میں آنے کے امکانات کم ہیں۔‘