انڈیا میں ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر نے انکشاف کیا کہ وہ ڈیجیٹل دھوکہ دہی کا شکار ہوئے جس میں انہیں تقریباً 40 گھنٹے تک ’یرغمال‘ بنایا گیا۔ یہ واقعہ ملک میں بڑھتے ہوئے سائبر جرائم کی ایک تازہ مثال ہے۔
اتوار کو انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں انکُش بہوگنا نامی انفلوئنسر نے بتایا کہ وہ دھوکہ بازوں کے مطالبات کے سامنے کس طرح مجبور ہو گئے جنہوں نے ان سے کئی بڑی مالی ادائیگیاں کروائیں اور خاندان اور دوستوں سے سب کچھ چھپانے پر مجبور کیا۔
انفلوئنسر نے اپنی بات کا آغاز ان الفاظ سے کیا: ’میں گذشتہ تین دن سے سوشل میڈیا اور ہر جگہ سے غائب رہا کیونکہ مجھے کچھ دھوکہ بازوں نے ’یرغمال‘ بنا لیا تھا۔
’میں اب بھی صدمے میں ہوں۔ میں نے پیسہ کھو دیا۔ میں نے اپنی ذہنی صحت کھو دی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ یہ میرے ساتھ ہوا۔‘
بہوگنا کو نامعلوم بین الاقوامی نمبر سے ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ان کے پیکج کی ڈیلیوری منسوخ کر دی گئی ہے اور مزید معلومات اور مدد کے لیے ایک نمبر ملانے کا کہا گیا۔
اپنے لیے کسی ایسے پیکج جسے وہ یاد نہیں کر پا رہے تھے، کے بارے میں جاننے کے تجسس میں انفلوئنسر نے وہ نمبر ملایا۔ اس فیصلے کو انہوں نے اپنی زندگی کی ’سب سے بڑی غلطی‘ قرار دیا۔
ان کی ’کسٹمر سپورٹ نمائندے‘ سے بات کروائی گئی جنہوں نے بتایا کہ ان کا پیکج پولیس نے ضبط کر لیا ہے کیوں کہ اس میں ’غیر قانونی‘ اشیا موجود تھیں، لیکن مزید کوئی وضاحت نہیں کی۔
بہوگنا کو یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری ہو چکا ہے اور ان کے پاس صرف ایک گھنٹہ ہے کہ وہ پولیس سے رابطہ کریں اور یہ وضاحت کریں کہ ان کی شناخت چوری ہوئی ہے۔
بہوگنا نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں مکمل طور پر گھبرا گیا تھا۔ پھر مذکورہ شخص نے مجھے قائل کیا کہ میرے پاس تھانے جانے کا وقت نہیں لہٰذا وہ مجھ پر احسان کرتے ہوئے، میرا پولیس سے براہ راست پولیس سے رابطہ کروا دے گا۔‘
بہوگنا کو وٹس ایپ ویڈیو کال کے ذریعے ایک ایسے شخص سے ’ملوایا گیا‘ جنہوں خود کو ممبئی پولیس کا اہلکار بتاتے ہوئے ان سے تفتیش شروع کر دی۔
اس ’پولیس اہلکار‘ نے انہیں بتایا کہ وہ ایک ’قومی سطح کے‘ مقدمے میں ’مرکزی ملزم‘ ہیں اور ان پر منی لانڈرنگ اور منشیات کی سمگلنگ کا الزام ہے، جس کی وجہ سے اب وہ ’خود ساختہ تحویل‘ میں ہیں۔
انفلوئنسر نے اپنی ویڈیو میں کہا کہ ’انہوں نے مجھے مکمل طور پر الگ تھلگ کر دیا۔ مجھے کالز اٹھانے کی اجازت نہیں تھی، نہ کسی کو میسج کرنے یا کسی کے میسجز کا جواب دینے کی اجازت تھی، نہ ہی گھر میں کسی کو آنے دینے کی اجازت تھی۔
’انہوں نے مجھے کہا کہ اگر میں نے کسی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو وہ مجھے گرفتار کر لیں گے اور جس سے میں رابطہ کروں گا اسے نقصان پہنچائیں گے۔‘
انفلوئنسر کے مطابق اگلے 40 گھنٹے تک’پولیس‘ نے انہیں کہا کہ گھر میں موجود ہر برقی آلہ بند کر دیں اور ویڈیو پر دکھائیں کہ انہوں نے ایسا کر دیا ہے۔
انہیں فون کالز یا ٹیکسٹ میسجز کا جواب دینے سے بھی منع کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انفلوئنسر نے بتایا کہ ’انہوں نے ’اچھے پولیس والے‘ اور ’برے پولیس والے‘ کا کھیل کھیلا اور مجھے ذہنی طور پر توڑ دیا۔ میں رو رہا تھا لیکن انہوں نے مجھے مسلسل 40 گھنٹے کال پر رکھا۔
کچھ وقت کے بعد بہوگنا کو کئی مشکوک مالی ادائیگیاں کرنے کا کہا گیا جو انہوں نے کیں۔ حتیٰ کہ وہ بینک بھی گئے۔
انفلوئنسر نے کہا کہ ’انہوں نے میرے بینک کی تفصیلات لے لیں۔ انہوں نے میری زندگی کے بارے میں بہت ذاتی معلومات جمع کر لیں۔
انہوں نے مجھے کہا کہ ’تمہارے والدین خطرے میں ہیں‘ اور ’اگر تم نے کسی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ہم تمہیں گرفتار کر لیں گے۔‘
بہوگنا کے دوستوں اور خاندان والوں نے ’خود ساختہ تحویل‘ کے دوران انہیں کالز اور میسجز کیے لیکن ’پولیس‘ نے انہیں کہا کہ ان کے خدشات کو نظرانداز کریں۔
انہوں نے کہا کہ ’لوگ مجھے میسجز کر رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ ’کیا کسی نے تمہیں یرغمال بنا رکھا ہے؟ یہ نارمل رویہ نہیں ۔ کیا تمہیں مدد کی ضرورت ہے؟‘
’میں کانپ رہا تھا۔ پریشان تھا اور مسلسل سوچ رہا تھا کہ ’یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیا معاملہ ہے؟ میں حقیقت میں رو رہا تھا اور ان سے التجا کر رہا تھا۔‘
بالآخر بہوگنا ان بہت سے پیغامات میں سے ایک پڑھنے میں کامیاب ہو گئے جو انہوں نے وصول کیے تھے اور جن میں ’ڈیجیٹل گرفتاری‘ کے دھوکے کا ذکر تھا جو انڈیا میں تیزی سے عام ہو رہا ہے۔
انفلوئنسر کا کہنا تھا کہ ’ان دھوکے بازوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ ایک جھوٹ پر یقین کر لیں گے تو وہ آپ سے مزید 10 جھوٹ اور بولیں گے اور وہ پہلے سے زیادہ خوف ناک ہوں گے۔‘
ویڈیو کے نیچے موجود تحریر میں انفلوئنسر نے ان دوستوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے محسوس کیا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے، اور انہیں اس بات کا سہرا دیا انہوں نے ان کی ’حقیقی معنوں میں جان بچائی۔‘
انفلوئنسر کے بقول: ’میں خود کو بہت خوش قسمت محسوس کرتا ہوں کہ میرے ایسے دوست ہیں جن کی حسیات اتنی طاقت ور ہیں کہ انہوں نے میرے رویے میں تبدیلی کو محسوس کر لیا، حالاں کہ انہیں میری طرف سے ’میں ٹھیک ہوں‘ جیسے پیغامات مل رہے تھے۔ انہوں نے حقیقت میں کچھ برا ہونے سے روک لیا۔
’سوچیں اگر وہ مجھے نہ ڈھونڈتے یا سراغ تلاش نہ کرتے تو میں شاید اب بھی اس سائبر گرفتاری میں ہوتا اور اپنی تمام رقم کھو چکا ہوتا۔
انہوں نے کہا: ’براہ کرم اس دھوکے سے ہوشیار رہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ زیادہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دھوکہ باز آپ کو قابو میں رکھنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔‘
دی انڈپنڈنٹ نے بہوگنا سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا ہے۔
’ڈیجیٹل گرفتاری‘ کے فراڈ پر 2024 میں سائبر کرائم سے متعلق کئی خبریں آئیں۔
اس طرح کے فراڈ میں، دھوکہ باز خود کو قانون نافذ کرنے والے اہلکار ظاہر کرتے ہیں اور متاثرین کو مالی بےضابطگیوں، ٹیکس چوری یا بہوگنا کے معاملے میں، منشیات کی سمگلنگ کے الزامات سے ڈرا دھمکا کر قابو میں کر لیتے ہیں۔
متاثرہ افراد کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ’تحقیقات میں مدد‘ یا ’قابل واپسی سکیورٹی ڈپازٹ‘ کے نام پر بڑے پیمانے پر رقم بینک یا آن لائن اکاؤنٹس میں منتقل کر دیں۔
دہلی کی سائبر پولیس کے مطابق، 2024 میں سائبر فراڈ کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا اور جون تک 61 ہزار 525 شکایات درج کی گئیں جو گذشتہ سال اسی مدت میں درج ہونے والے 55 ہزار 267 کیسز کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں۔
اعدادوشمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دھوکہ بازوں نے 4.52 ارب انڈین روپے (چار کروڑ 22 لاکھ پاؤنڈ) چرائے جو 2023 میں 1.75 ارب انڈین روپے(ایک کروڑ 63 لاکھ پاؤنڈ) کے مقابلے میں 158 فیصد زیادہ ہے۔
نومبر میں ریاست تلنگانہ کے جنوبی شہر حیدرآباد کی 69 سالہ خاتون جو دو بچوں کی ماں ہیں، اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی یعنی پانچ کروڑ 60 لاکھ انڈین روپے (52 لاکھ پاؤنڈ) سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
انہوں نے20 دن میں 14 بار رقم منتقل کی کیوں کہ دھوکہ بازوں نے ان پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔
دسمبر میں بنگلورو شہر سے تعلق رکھنے والے 39 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر بھی اس طرح کی دھوکہ دہی میں 11 کروڑ 80 لاکھ انڈین روپے (11 لاکھ پاؤنڈ) سے محروم ہو گئے۔ یہ دھوکہ دہی 18 دن تک جاری رہی۔
© The Independent