حماس کا چھ اسرائیلی قیدیوں کو رہا، چار کی لاشیں واپس کرنے کا اعلان

حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ ہفتے کو چھ زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا اور جمعرات کو چار دیگر کی لاشیں واپس کی جائیں گی۔ 

18 فروری 2025 کو جاری کی گئی اس تصویر میں ہفتے کو حماس کی جانب سے رہا کیے جانے والے چھ اسرائیلی قیدیوں کو دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ ہفتے کو چھ زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا اور جمعرات کو چار دیگر کی لاشیں واپس کی جائیں گی۔ 

یہ رہائی بظاہر اسرائیل کی جانب سے تباہ حال غزہ پٹی میں عارضی مکانات اور تعمیراتی سامان لے جانے کی اجازت دینے کے بدلے میں ہو رہی ہے۔

یہ چھ قیدی جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں رہا کیے جانے والے آخری زندہ قیدی ہوں گے، جو اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے میں چھوڑے جا رہے ہیں۔

حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے منگل کو جاری کردہ پہلے سے ریکارڈ شدہ بیان میں کہا کہ جو لاشیں واپس کی جا رہی ہیں ان میں بیباس خاندان کے افراد بھی شامل ہیں – دو کم سن بچے اور ان کی والدہ۔

اسرائیل نے ان کی موت کی تصدیق نہیں کی، جبکہ وزیر اعظم کے دفتر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ حماس کے اعلان کے بعد ’تصاویر، نام اور افواہیں‘ نہ پھیلائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیباس خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد نے منگل کو ایک بیان میں کہا: ’گذشتہ چند گھنٹوں سے ہم شدید ذہنی اضطراب میں ہیں۔ جب تک ہمیں حتمی تصدیق نہیں ملتی، ہمارا سفر ختم نہیں ہوا۔‘

اسرائیل کو طویل عرصے سے شیری بیباس اور ان کے بیٹوں کفیر اور ایریل کی سلامتی پر شدید تشویش تھی، جن کے بارے میں حماس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جنگ کے آغاز میں اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے۔ ان کے شوہر اور بچوں کے والد یاردن بیباس کو الگ سے قیدی بنایا گیا تھا اور انہیں اس ماہ رہا کیا گیا۔

قیدیوں میں ایلیا کوہن، طال شوہام، عمر شیم توو، عمر ونکیرٹ، ہشام السید، اور اویرہ منگستو شامل ہیں، ان ناموں کی فہرست ہوسٹیج اینڈ مسنگ فیملیز فورم (Hostages and Missing Families Forum) نے منگل کو جاری کی۔

السید اور منگستو دو ایسے افراد ہیں جو حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کو کیے جانے والے حملے سے قبل قید کیے گئے تھے۔

ان چھ افراد کی رہائی فائر بندی معاہدے میں تیزی کی علامت ہے۔

معاہدے کے مطابق، پہلے مرحلے کے ساتویں دور میں حماس کو ہفتے کے روز تین قیدیوں کو رہا کرنا تھا، جبکہ مزید تین کو ایک ہفتے بعد چھوڑنا تھا۔

اس معاہدے کے وقت، صرف مرنے والوں کی لاشیں واپس کرنے کی شرط رکھی گئی تھی۔

اسرائیل بدلے میں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں سے کچھ بغیر کسی الزام کے قید میں ہیں۔

پہلے مرحلے میں، اسرائیل جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں قید تمام خواتین اور بچوں کو بھی رہا کرے گا۔

دونوں فریقوں کو ابھی جنگ بندی کے دوسرے اور زیادہ پیچیدہ مرحلے پر بات چیت کرنی ہے، جس کے تحت حماس مزید درجنوں قیدیوں کو چھوڑے گا، لیکن اس کے بدلے میں ایک مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کے انخلا کا مطالبہ کرے گا۔

قیدیوں کی رہائی کے بدلے تعمیراتی سامان غزہ جانے کی اجازت

ایک اسرائیلی عہدیدار، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، نے بتایا کہ وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے قیدیوں کی رہائی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے طویل عرصے سے زیر التوا عارضی مکانات اور تعمیراتی سامان غزہ لے جانے کی اجازت دی ہے۔

گذشتہ ہفتے حماس نے دھمکی دی تھی کہ وہ قیدیوں کی رہائی کو روک سکتی ہے، کیونکہ اسرائیل نے عارضی مکانات اور بھاری مشینری کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی، جسے حماس نے جنگ بندی کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

ملبہ ہٹانے کے آلات غزہ میں داخل

ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک صحافی اور مصر کے سرکاری میڈیا کے مطابق، اسرائیل نے منگل کو ملبہ ہٹانے والی مشینری کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔

اے پی کے صحافی نے رفح کی سرحد کے قریب فلسطینی علاقے میں دو بلڈوزر دیکھے جو ملبہ ہٹا رہے تھے۔ ایک مصری ڈرائیور نے اے پی کو بتایا کہ درجنوں بلڈوزر اور ٹریکٹر ایک اور گزرگاہ پر موجود ہیں، اور اسرائیلی اجازت کا انتظار کر رہے ہیں۔

غزہ کی تعمیر نو پر 53.2 ارب ڈالر لاگت آئے گی

ورلڈ بینک، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی منگل کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، جنگ کے باعث غزہ کی تعمیر نو پر 53.2 ارب ڈالر لاگت آسکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنگ سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ تقریباً 30 ارب ڈالر ہے، جن میں سے نصف مکانات کی تباہی پر مشتمل ہے۔

فلسطینی اپنے وطن میں رہنا چاہتے ہیں

جنوری کے وسط میں شروع ہونے والی جنگ بندی نے ان جھڑپوں کو روک دیا ہے جن میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 48,000 سے زائد فلسطینی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، جان سے جا چکے ہیں۔ تاہم، وزارت نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان میں سے کتنے جنگجو تھے۔

دوسری طرف، اسرائیلی حکومت کا موقف ہے کہ وہ غزہ میں حماس کو ایک عسکری اور حکومتی قوت کے طور پر ختم کرنا چاہتی ہے۔ ادھر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے نے، جس کے تحت غزہ کے 20 لاکھ رہائشیوں کو مستقل طور پر کسی دوسرے مقام پر منتقل کر کے علاقے کی دوبارہ تعمیر کی جائے گی، فلسطینیوں اور عرب دنیا میں شدید غصہ پیدا کر دیا ہے۔

مصر فلسطینیوں کو بےدخل کیے بغیر غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک متبادل منصوبہ تیار کر رہا ہے۔

غزہ کے علاقے جبالیہ کے رہائشی محمد شعبان نے اے پی کو بتایا ’ہم کسی بھی حال میں اپنا ملک نہیں چھوڑیں گے۔‘ جبالیہ ان علاقوں میں شامل ہے جو جنگ کے دوران شدید بم باری کی زد میں آئے، اور اس کا زیادہ تر بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔

جبالیہ ہی کے ایک اور رہائشی محمد بہجت نے کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ ’ناقابل قبول‘ ہے اور وہ اور ان کا خاندان بے دخلی کی کسی بھی کوشش کے خلاف مزاحمت کریں گے۔

اسرائیل اور ٹرمپ انتظامیہ کی ہم آہنگی

اسرائیل نے ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کی ہے اور دونوں حکومتیں کہہ چکی ہیں کہ وہ جنگ میں ایک جیسے مقاصد رکھتی ہیں۔

جنگ بندی کے خاتمے کا خدشہ

معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت حماس کو مرحلہ وار 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہے، جن میں سے آٹھ کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ جان سے جا چکے ہیں۔ اب تک 19 زندہ اسرائیلی قیدیوں کے علاوہ پانچ تھائی لینڈ کے زرعی مزدوروں کو بھی رہا کیا جا چکا ہے۔

اگر اس ہفتے مزید رہائیاں منصوبے کے مطابق ہوئیں، تو چار مزید لاشیں اگلے ہفتے اسرائیل کے حوالے کی جائیں گی۔

حماس کے زیر حراست قیدیوں میں سے تقریباً 60 ابھی بھی قید ہیں، جن میں سے تقریباً نصف کے جان سے جانے کا خدشہ ہے۔

جنگ بندی کا موجودہ مرحلہ مارچ کے آغاز تک جاری رہے گا، لیکن خدشہ ہے کہ لڑائی دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔

معاہدے کے دوسرے اور زیادہ پیچیدہ مرحلے پر بات چیت اس ماہ کے اوائل میں شروع ہونا تھی، لیکن اب تک کسی بڑے بریک تھرو کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا