بابر اعظم نے جب 2017 میں پاکستان کو چیمپیئنز ٹرافی جتوانے میں مدد کی تو وہ ایک 22 سالہ نوجوان کھلاڑی تھے۔
تقریباً آٹھ سال بعد، وہ تمام فارمیٹس میں دنیا کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک بن چکے ہیں اور اب ان کی نظر اپنے ملک کے لیے وہی کارنامہ دہرانے پر ہے۔
2017 کا ٹورنامنٹ بابر کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانے کا ذریعہ بنا۔ فائنل میں انڈیا کے خلاف 52 گیندوں پر 46 رنز کی ان کی کلاسیکل اننگز نے پاکستان کو 180 رنز کی جیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا، جو اب بھی قومی کرکٹ کی یادوں میں زندہ ہے۔
لیکن یہ دائیں ہاتھ کے بلے باز ماضی میں جینے کے بجائے، آنے والے ہفتوں میں پاکستانی عوام کے سامنے نئے یادگار لمحات تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔
بابر کہتے ہیں ’میں بہت پرجوش ہوں۔ ہم ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان میں ایک آئی سی سی ٹورنامنٹ کی میزبانی کر رہے ہیں۔ ایک کھلاڑی کے طور پر، میں بہت پرجوش ہوں، اور تمام شائقین بھی پرجوش ہیں۔‘
انہوں نے 2017 کے فائنل کی اپنی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے لیے سب سے اہم فخر زمان کی سنچری (114 رنز)، محمد عامر اور حسن علی کی بولنگ، اور جیت کا وہ لمحہ تھا۔
انہوں نے آئی سی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے لیے یہ ایک نئی شروعات تھی کیونکہ میں ایک نوجوان کھلاڑی تھا۔ انڈیا کے خلاف کھیلتے ہوئے، جوش اور گھبراہٹ تھی، لیکن جب ہم نے جیتا، تو ہم نے خوب لطف اٹھایا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’چیمپیئنز ٹرافی 2017 کے بعد سے بہت کچھ بدل چکا ہے۔ نئے کھلاڑی آئے ہیں، اور ہمارے پاس صرف تین یا چار کھلاڑی ہیں جو اس جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ لیکن ہمارا اعتماد، یقین اور کھیلنے کا طریقہ وہی ہے۔‘
ٹورنامنٹ کا آغاز بدھ کو کراچی میں ہوگا اور پہلے میچ میں پاکستان نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے ہوگا، جس میں ٹورنامنٹ کے دو بڑے نام، بابر اور نیوزی لینڈ کے کین ولیمسن، ایک دوسرے کے مقابل ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جو روٹ، سٹیو سمتھ، اور ویراٹ کوہلی جیسے کھلاڑی بھی اپنی ٹیموں کا حصہ ہیں، لیکن بابر ون ڈے کرکٹ میں ایک الگ ہی مقام رکھتے ہیں، اور وہ اس ٹورنامنٹ میں دنیا کے نمبر ایک ون ڈے بلے باز کے طور پر شریک ہیں۔
بابر کہتے ہیں کہ ’جب آپ کو سینیئر کھلاڑی کے طور پر ذمہ داری ملتی ہے، اور ٹیم آپ پر بھروسہ کرتی ہے، تو میں اسے مثبت طریقے سے لیتا ہوں۔ میں ہر میچ میں اپنی بہترین کوشش کرتا ہوں تاکہ پاکستان جیتے، اور میں اپنی کرکٹ سے لطف اندوز ہوں۔‘
ان کی فارم پاکستان کی کامیابی کے لیے اہم ہوگی، خاص طور پر اس وقت جب سے پاکستان پچھلے دو آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ اور گذشتہ سال کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں گروپ میچز کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔
’کسی بھی چیز کا دباؤ نہیں ہے۔ ماضی میں جو ہوا، وہ ہمارے اختیار میں نہیں تھا۔ ہم نے اپنی غلطیوں پر بات کی ہے اور ان پر کام کیا ہے، لہذا ہم پچھلی غلطیاں دہرانے سے گریز کریں گے۔‘
اپنے ملک میں کھیلنے کا فائدہ پاکستان کی کامیابی کے لیے اہم ہو سکتا ہے۔ لاہور، بابر کا آبائی شہر، میچز کی میزبانی کرنے والے تین شہروں میں سے ایک ہے، اور بابر کا ماننا ہے کہ مقامی کنڈیشنز فائدہ پہنچائے گی۔
’اپنے ملک میں کھیلتے ہوئے آپ کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ آپ حالات سے واقف ہوتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ پہلی اور دوسری اننگز میں پچ کا رویہ کیسا ہوگا لیکن پھر بھی آپ کو اچھی کرکٹ کھیلنی ہوتی ہے کیونکہ باقی تمام ٹیمیں بھی بہترین ہیں۔‘
بابر نے کہا: ’پاکستان میں ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنا ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی مہمان نوازی بہترین ہے، اور یہاں کے لوگ کرکٹ پسند کرتے ہیں۔ کرکٹ سب کو ایک جگہ پر لے آتی ہے، اور پورا پاکستان یہی دعا کر رہا ہے کہ پاکستان جیتے۔ سب ایک ہی جذبے کے ساتھ متحد ہیں۔‘