کراچی: جعلی ادویات کے خلاف کارروائی، مضر دواؤں کی فہرست جاری

کراچی میں ڈرگ انسپکٹر نے کارروائی کرتے ہوئے معروف دواساز کمپنیوں کی جعلی ادویات تحویل میں لے لی ہیں، جن میں درد کش ادویات، درد کش مرہم اور مرگی کے مرض کی ادویات شامل ہیں اور ایسی ادویات کی فہرست بھی جاری کی گئی ہے، جو مضر صحت ہیں۔

ڈرگ ٹیسٹنگ لیب نے خبردار کیا ہے کہ ضبط کی گئی دوائیوں میں زہریلے اجزا شامل ہو سکتے ہیں، جو ’جان لیوا‘ بھی ثابت ہو سکتے ہیں (پکسابے)

کراچی میں ڈرگ انسپکٹر نے کارروائی کرتے ہوئے معروف دواساز کمپنیوں کی جعلی ادویات تحویل میں لے لی ہیں، جن میں درد کش ادویات، درد کش مرہم اور مرگی کے مرض کی ادویات شامل ہیں اور ایسی ادویات کی فہرست بھی جاری کی گئی ہے، جو مضر صحت ہیں۔

ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری سندھ کی جانب سے 17 فروری کو ان ادویات کی فہرست جاری کی گئی، جو جعلی اور مضرِ صحت قرار دی گئی تھیں۔

ان ادویات میں جسم کے درد کے لیے لگائے جانے والے مرہم آئیوڈیکس، پٹھوں کے آرام کے لیے استعمال ہونے والی گولیاں نیوبرول فورٹ اور عموماً مرگی کے مرض کے لیے استعمال میں لائی جانے والی فینو بار شامل ہیں۔

اسی کے ساتھ بیکٹیریا سے ہونے والے انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے آئیوسیف کیپسول اور ایلکوزائم سسپینشن پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

ڈرگ انسپکٹر سندھ نے مزید جن ادویات کو ضبط کر کے پابندی عائد کی ہے، اس میں بیکٹریل انفیکشن کے تدارک کے لیے استعمال ہونے والی میرزولم گولیاں، اینزائٹی کے تدارک کے لیے استعمال ہونے والی ایلپرازولیم اور گھبراہٹ کے عوارض اور شدید اضطراب کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی لیگزوپام اور زینکس شامل ہیں۔

ڈرگ ٹیسٹنگ لیب نے خبردار کیا ہے کہ ان دواؤں میں زہریلے اجزا شامل ہو سکتے ہیں، جو ’جان لیوا‘ بھی ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی حوالے سے ڈائریکٹر ڈرگ ٹیسٹنگ لیباریٹری سندھ عدنان رضوی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’ان ادویات میں مطلوبہ مالیکیول شامل نہیں تھے جبکہ دوا ساز کمپنیوں نے ادویات کے بیج سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ آئیوڈیکس مرہم کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 2021 کے بعد سے یہ مرہم نہیں بنائی گئی۔

’اسی طرح مرگی کے مرض کے تدارک کے لیے استعمال ہونے والی دوا 2017 سے لیبارٹری نے تیار کرنی بند کر دی ہے۔‘

عدنان رضوی کے مطابق: ’ضبط کی گئی ادویات کے بیج دوا ساز کمپنیوں نے تیار نہیں کیے، شہری نیوبرول فورٹ بیج نمبر ڈی بی 0982، آئیوڈیکس بیج نمبر ایچ آئی اے اے سی اور فینو بار بیج نمبر کیو اے 008 نہ خریدیں۔‘

انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ ’رجسٹرڈ فارمیسیز سے دوائیں خریدیں، کیش میمو کا تقاضا ضرور کریں تاکہ دوا کے مضر اثرات کی صورت میں قانونی کارروائی ہو سکے۔‘

ڈائریکٹر ڈرگ ٹیسٹنگ لیباریٹری سندھ عدنان رضوی نے شہریوں کو جعلی ادویات سے بچانے کے لیے آگاہی دیتے ہوئے بتایا: ’ہر دوا کے اوپر بار کوڈ موجود ہوتا ہے اور ہر دوسرے شخص کے پاس سمارٹ فون ہے، بار کوڈ سکین کرنے سے وضاحت سامنے آ جائے گی کہ آیا دوا اصلی ہے یا جعلی، جس دوا پر بار کوڈ نہ ہو، اس پر شبہ کیا جاسکتا ہے۔

’جعلی ادویات اصلی ادویات کے متبادل نہیں ہوتیں، اس لیے ان کے استعمال سے بیماری کا علاج نہیں ہو پاتا، جس سے صحت مزید خراب ہو سکتی ہے اور مختلف بیماریوں یا صحت کے مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔‘

عدنان رضوی کے مطابق: ’پکڑی گئی ادویات پر کراچی، شکارپور، سکھر، شیخوپورہ اور حیات آباد کے پتے درج ہیں تاہم جب ڈرگ انسپیکٹرز ان پتوں پر گئے تو وہاں کوئی کمپنی ہی موجود نہیں تھی۔

’ہم نے پنجاب میں ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے رابطہ کرکے کمپنی کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں، ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ شیخوپورہ کے پتے پر کمپنی موجود نہیں۔‘

کراچی کے علاوہ لاہور اور پشاور میں بھی جعلی ادویات کے خلاف آپریشن کیا گیا، جس کے بعد ڈرگ انسپیکٹر نے ان ادویات کو ضبط کر کے ان پر پابندی عائد کر دی۔

غیر معیاری اور جعلی ادویات صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ

جعلی ادویات کے نقصانات کے حوالے سے جناح ہسپتال کے ماہر ڈاکٹر عدفان صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جعلی ادویات کا استعمال مختلف خطرات کا سبب بن سکتا ہے، جعلی ادویات کی کمزور ترکیب (Low Potency) بیماری کے خلاف موثر نہیں ہوتی، جس سے مریض کی حالت بگڑ سکتی ہے۔

’غیر معیاری ترکیبات کی موجودگی کی وجہ سے مریضوں کو مختلف منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جیسے کہ الرجی یا صحت کی دیگر پیچیدگیاں۔ بعض اوقات جعلی ادویات کی وجہ سے مریض کی جان بھی جا سکتی ہے، خاص طور پر ایسی صورتوں میں جہاں زندگی بچانے والی ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

بقول ڈاکٹر عرفان صدیقی: ’جعلی ادویات میں بعض اوقات طاقتور مالیکیول موجود ہوتا ہے، جو انسانی اعضا کو براہ راست نقصان پہنچا کر دل، جگر اور گردے بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔‘

پاکستان کیمسٹ ڈرگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالصمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمارے ہاں جعلی ادویات کے خلاف آپریشن ہوتے رہتے ہیں لیکن چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے آپریشن اس طرح سے کامیاب نہیں ہو پاتے۔

’جعلی ادویات کی تیاری یا فروخت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں، جن میں قید اور مالی جرمانے شامل ہیں لیکن ہمارے قانون میں کمزوریاں موجود ہیں، جن کی وجہ سے مارکیٹ میں کالے دھندوں کا بازار گرم رہتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت