کپتانی کی جنگ میں بابر اعظم ہمت ہار گئے

بابر اعظم نے 147 انٹرنیشنل میچوں میں کپتانی کی جن میں 83 میں وہ فاتح رہے جبکہ 50 میں شکست مقدر بنی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بابر اعظم آئی سی سی مینز ٹی20 ورلڈ کپ 2024 کے دوران آئرلینڈ کے خلاف میچ میں شاٹ کھیل رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ میں گذشتہ ایک سال سے جو گراوٹ اور اندرون خانہ سازشوں کا طوفان آیا ہوا ہے اس نے نیا گل گذشتہ روز دکھایا جب ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔

بابر اعظم کو ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سے تو 10 ماہ قبل ہی فارغ کردیا گیا تھا جب آسٹریلیا کے دورے پر ان کی جگہ شان مسعود کو کپتان بنایا گیا تھا لیکن ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی کی کپتانی تاہم باقی تھی۔

پاکستان کے محدود اوورز کی کرکٹ کے میچز آسٹریلیا کے خلاف سیریز سے نومبر میں شروع ہوں گے اور پی سی بی اس سیریز سے بہت پہلے کپتانی کے مسائل حل کرلینا چاہتا ہے۔ وائٹ بال کوچ گیری کرسٹن کا حالیہ دورہ شاید اس استعفے کی وجہ ہوسکتا ہے۔ وہ بابر کی کپتانی سے مطمئن نہیں تھے۔

گذشتہ امریکہ اور کیریبئین ورلڈکپ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد بابر پر بہت زیادہ تنقید کی جارہی تھی کیوں کہ جس طرح پاکستان نے فیوریٹ ہوتے ہوئے ورلڈکپ میں صرف انڈیا ہی نہیں بلکہ امریکہ جیسی نو آموزٹیم سے شکست کھائی تھی اس نے ان کے مستقبل کا احوال وقت سے پہلے ہی تحریر کردیا تھا اگرچہ شکست پوری ٹیم کی بدترین کارکردگی تھی لیکن نزلہ بابر پر گرا تھا۔

بابر اعظم جس تیزی اور سرعت کے ساتھ ایک زبردست بلے بازکے روپ میں سامنے آئے تھے اس نے انہیں بہت زیادہ خود اعتمادی کا شکار بنادیا تھا۔ وہ کیریئر کے آغاز میں ہی شہرت کے آخری زینے پر پہنچ گئے تھے۔

جلد بازی لے ڈوبی

بابر اعظم نے اپنے انٹرنیشنل کرکٹ کیریئر کا آغاز 2015 میں زمبابوے کے خلاف کیا اظہر علی ان کے پہلے کپتان تھے۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان ٹیم سے سپر اسٹارز فارغ ہوچکے تھے۔ بابر نے ابتدا سے عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا۔ جس پر ان کا فین کلب بڑھنے لگا۔  سوشل میڈیا نے زیادہ آگ لگائ اور وہ بابر سے کنگ بابر بن گئے۔

اگرچہ ان کی ابتدائی اننگز کمزور ٹیموں کے خلاف تھی لیکن آسٹریلیا میں ان کی سنچری نے انہیں آسمان پر پہنچادیا۔ وہ ایک دم سے ہیرو بن گئے۔ میڈیا نے انہیں سرفرازاحمد کی جگہ کپتان بنانے کے مطالبے شروع کردیے، پی سی بی کے ارباب اقتدار بھی سوشل میڈیا کے دباؤ میں آگئے اور جو کمی تھی وہ رمیز راجہ کے تبصروں نے پوری کر دی۔

بابر کپتان کیا بنے دنیا نے انہیں بریڈمین سمجھنا شروع کردیا۔ بابر اعظم نے 147 انٹرنیشنل میچوں میں کپتانی کی جن میں 83 میں وہ فاتح رہے جبکہ 50 میں شکست مقدر بنی۔

اگرچہ یہ اعداد و شمار برے نہیں ہیں لیکن ان میں زیادہ تر فتوحات کمزور ٹیموں کے خلاف تھی۔ جس کے باعث وہ عظیم کپتانوں کی فہرست میں نہ آسکے۔

وہ 20 ٹیسٹ میچوں میں کپتانی کرتے ہوئے 10 میچ جیت گئے لیکن ساری فتوحات بنگلہ دیش سری لنکا اور ساؤتھ افریقہ کی کمزور ٹیموں کے خلاف تھی۔

وہ ایک اچھے بلے باز تو تھے لیکن قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان رہا۔

چند سینیئر کھلاڑیوں کے جلد کیریئر کے اختتام میں وہ بھی ایک کردار بنے رہے۔

کپتانی پر اختلافات

بابر اپنے عظیم بلے باز ہونے کے نشے میں چند ایسے مطالبے کر گئے جو ان کے لیے بہت جلدی تھے لیکن صاحبان اختیار نے بھی چشم پوشی کی اور خواہشات پوری کر دیں۔

پی ایس ایل میں کراچی کنگز کی کپتانی پر بحث نے ان کے قد کو بہت چھوٹا کر دیا۔ عماد وسیم کی قیادت میں کراچی کنگز نے جب ٹائٹل جیتا تو بابر اعظم کی شاندار بیٹنگ ہی اس جیت کی بنیاد تھی اسی لیے جب بابر نے کپتانی کا تقاضا کیا تو سلمان اقبال نے ہاں کرنے میں ہی عافیت جانی ورنہ بابر اعظم فرینچائز چھوڑ دیتے۔ لیکن بابر کی قیادت نے کراچی کو آخری نمبر پر پہنچادیا۔ بابر جیت کے لیے ترس گئے !!!

برے نتائج نے جب مالکان کو طیش دلایا تو بابر نے پشاور زلمی میں شمولیت اختیار کرلی۔ پشاور شاداں و فرحاں تھی کہ کنگ اب ہمارے ساتھ ہے لیکن پشاور کو بھی وہ فاتح نہ بناسکے۔

کپتانی کے یہی مسائل قومی ٹیم میں بھی چل رہے تھے۔

شاہین شاہ آفریدی کو جب ان کی جگہ ٹی ٹوئنٹی کپتان بنایا گیا تو وہ ناراض ہوگئے۔ ناراضی اس قدر بڑھی کہ وہ نیوزی لینڈ کا دورہ بھی نہیں کر رہے تھے لیکن بورڈ کے انتباہ پر راضی ہوگئے۔ تاہم ان کی قسمت نے پھر اونچی اڑان بھری جب موجودہ چیئرمین نے عنان اقتدار سنبھالا اور کپتانی پھر سے مل گئی۔

لیکن اب فتح کی دیوی دور چلی گئی اور امریکہ میں جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا وہ سارے کیریئر کو داغدار کرگئی۔

ایک طرف جنگ دوسری طرف اطمینان

عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان ٹیم میں کپتانی کی جنگ نے تماشہ بنا دیا ہے تو ہمسایہ ملک میں کپتانی کے مسئلے پر متعلقہ بورڈ انتہائی مطمئن ہے۔ روہت شرما کے ساتھ وراٹ کوہلی جیسا مہاں بلے باز مکمل تعاون کر رہا ہے۔

میڈیا روہت کو مکمل سپورٹ کررہا ہے۔ حالانکہ روہت کی ذاتی کارکردگی بہت خراب ہے لیکن ٹیم متحد ہے اور جم کر ہر سیریز میں کھیل رہی ہے۔

دوسری طرف پاکستانی ٹیم میں ہر دن ایک نئی خبر سامنے آتی ہے جب ایک دوسرے کے قدموں تلے زمین کھینچی جاتی ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ٹیم بنگلہ دیش سے دونوں ٹیسٹ ہار جاتی ہے اور بورڈ کو  کنکشن کیمپ کرنا پڑتا ہے۔

چند کھلاڑی آپس میں بات نہیں کرتے جبکہ ہر ایک اس شکست خوردہ دستے کی سپہ سالاری چاہتا ہے۔

بابر کے نئے عزائم

کپتانی کے عہدے سے مستعفی ہوتے ہوئے بابر اپنی بیٹنگ پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ شاید انہیں اس بات کا ادراک ہوگیا ہے کہ اگر خود اچھا نہ کھیلے تو بالکل ہی نہ نکال دیے جائیں گے لیکن بابر اعظم کو ایک بات سمجھنا ہوگی کہ انہیں اپنی بیٹنگ سے زیادہ اپنے مشیروں پر توجہ دینا ہوگی جن کے غلط مشورے اور نعرے انہیں لے ڈوبے۔

ان مشیروں نے بابر کو وقت سے پہلے بریڈمین بناکر ان کا بہت نقصان کیا ہے۔ بابر کو ابھی بہت وقت درکار تھا لیکن انھیں کوہلی کے ہم پلہ بناکر جس فضول مسابقت کو شروع کیا گیا وہ ہی بابر کی دشمن بن گئی۔

چند صحافیوں اور سابق ٹیسٹ کرکٹرز کی مبالغہ آرائی پر مبنی تبصروں نے بابر کو ایک نازک موڑ پر پہنچا دیا ہے۔

پاکستان کرکٹ نے گذشتہ 10 سال میں جو سب سے اچھا کھلاڑی پیدا کیا ہے وہ بابر اعظم ہیں لیکن انہیں اپنی کارکردگی سے خود کو عظیم کھلاڑی ثابت کرنا ہوگا۔

نئے کپتان کے لیے محمد رضوان کا نام لیا جا رہا ہے۔ شاید وہ موزوں بھی ہیں لیکن اس کے باوجود کپتانی کا گریٹ گیم انہیں بھی بھسم کر سکتا ہے۔ گذشتہ ایک سال میں محمد رضوان بھی تنازعات کا حصہ رہے ہیں اور نیا کردار انہیں مزید مشکلات میں ڈال سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ