کرکٹ میچ کا زیادہ نہیں تو کم از کم آدھا لطف کمنٹری سننے میں ہے۔ بالخصوص اگر سدھو جیسا چٹخارے دار اور دیسی بندہ مائیک سنبھالے ہو۔
ایسے جملوں کا کوئی جواب ہے؟ ’بیٹسمین کریز سے اتنا باہر نکل آیا کہ دھونی نے پہلے چائے پی، پھر اخبار پڑھا اور تب جا کر اسے سٹمپ کیا۔‘
حسن جلیل، منیر حسین اور محمد ادریس کا بہت نام سنا۔ ٹی وی سے پہلے ریڈیو پر آواز سے تصویر بنانے کا ہنر ان پہ ختم تھا۔
آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ دل کی دھڑکنیں بندھی ہوتی تھیں۔ ایک آدھ ریڈیو ہوتا، پورے محلے کے کان اسی پہ لگے ہوتے۔ کیا کہتے تھے اسے، ٹرانزسٹر۔
میچ شروع ہونے سے پہلے پورے محلے میں گھوم کر چیک کر لیا جاتا کہ ٹرانزسٹر کہاں سگنل صحیح پکڑے گا ورنہ آواز سے زیادہ شور آتا۔
اختر وقار عظیم نے ’ہم بھی وہیں موجود تھے‘ میں لکھا کہ اسلم اظہر نے ٹی وی پر اردو کمنٹری کا آغاز کیا۔
جب آڈیشن کے لیے مختلف لوگوں کو بلایا گیا تو اسلم اظہر نے کہا کسی بھی میچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس پر غائبانہ تبصرہ کرو۔
منیر حسین کو سن کر اسلم صاحب نے کہا ’چلے گی‘ اور یوں کرکٹ پر اردو میں کمنٹری نشر ہونے لگی۔
اختر وقار عظیم نے کرکٹ میں ایک ٹیسٹ میچ کی کوریج کے حوالے سے لکھا کہ ایک موقعے پر کمنٹیٹر وقت پر نہ پہنچ سکے۔ پھر کیا تھا، کچھ وقت کے لیے کمنٹری اسلم اظہر نے سنبھال لی جو اس زمانے میں کراچی ٹیلی وژن کے سربراہ تھے۔
اسلم صاحب کیونکہ بنیادی طور پر ایک پروڈیوسر تھے اس لیے ساتھ ساتھ ہدایات نامے بھی جاری کرتے جاتے۔
اس سے پہلے ریڈیو پر تبصرے ہوتے تھے جس کا ایک کردار قیوم نظر تھے۔ قیوم نظر کو اگر آپ نہیں جانتے تو ان کی ایک نظم ضرور پڑھ رکھی ہو گی، ’بلبل کا بچہ، کھاتا تھا کھچڑی، پیتا تھا پانی۔‘
افضل رحمان اپنے مضمون اردو کے کمنٹیٹر میں لکھتے ہیں کہ ’ساٹھ کے عشرے میں کوشش کی گئی کہ اردو میں بھی رواں تبصرہ نشر کیا جائے۔
’اس میں جو کچھ تجربات ہوئے وہ کافی مزاحیہ نوعیت کے تھے کیونکہ اردو کمنٹیٹر کوشش کرتے تھے کہ عمر قریشی وغیرہ کی انگریزی کمنٹری کا اردو ترجمہ سامعین تک پیش کر دیں۔
’سب جانتے ہیں کہ ہر زبان کا اپنا مزاج ہوتا ہے لہٰذا ترجمے سے بات نہیں بنتی تھی۔ پھر جن شخصیات کا انتخاب کیا گیا وہ ترجمے کے علاوہ کچھ ایسی جدتیں پیش کرتے تھے کہ معاملات مزید مزاحیہ ہو جاتے۔‘
معروف اردو شاعر قیوم نظر مرحوم نے بھی اس دور میں ریڈیو پر اردو زبان میں کرکٹ کمنٹری کی۔ ان کا ایک جملہ مجھے یاد ہے جو ان دنوں زبان زد عام تھا۔
بولر کی گیند پھینکنے سے پہلے کی حالت بیان کرتے ہوئے موصوف نے فرمایا تھا، ’اب وہ گیند اپنی ران پر سہلا رہے ہیں۔‘
اختر وقار کے بقول ’تبصروں میں وہ مستعمل تکنیکی تراکیب اور الفاظ کا اردو ترجمہ بھی کرتے تھے جیسے وکٹ کو کِلی، بولر کو گیند باز، بیٹسمین کو بلے باز، آف بریک اور لیگ بریک کو سیدھی پِھرت اور الٹی پِھرت وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے بعض ترجمے آج بھی استعمال ہو رہے ہیں۔‘
بلے باز کی جگہ پہلے بیٹسمین تھا اب آ گیا بیٹر۔ لو جب انگلش لفظ ہی مستعمل نہ رہا تو اردو کیا کرے۔ ہمارے اخبارات نے گیند باز جیسے خوبصورت لفظ کو لکھنا چھوڑ دیا۔
کچھ دن پہلے ایک انڈین نے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ 20 فروری، 1985 کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان آسٹریلیا میں ایک روزہ میچ جاری تھا، جس کی براہِ راست نشریات دستیاب تھیں اور نہ ہی ریڈیو کمنٹری۔
میں یونیورسٹی سے گھر جا رہا تھا اور موڈ سخت خراب تھا کہ میچ کی کچھ گن سن نہیں مل رہی۔ گھر جا کر حیرت سے دوچار ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پتہ چلا کہ آل انڈیا ریڈیو تو خاموش ہے۔ وہ اپنی ٹیم کو میچ کور کرنے کے لیے بھیجنے میں ناکام رہا، لیکن ریڈیو پاکستان برابر نشریات دے رہا ہے۔ لمحہ لمحہ میچ کی صورتحال واضح ہو رہی ہے۔
یہ وہی میچ ہے جس میں پہلے کھیلتے ہوئے پاکستان نے محض 183 رنز بنائے تھے۔ جواب میں انڈیا کے تین کھلاڑی بہت جلد آؤٹ ہو گئے اور تینوں وکٹیں عمران خان نے حاصل کیں۔
اس کے بعد سنیل گواسکر اور اظہر الدین کی لمبی شراکت قائم ہوئی اور بالآخر پاکستان ہار گیا۔
سدھو یا کسی اور انڈین مبصر کو سنتے ہوئے درمیان میں بہت سے مانوس لفظوں سے واسطہ پڑتا ہے، مگر وہ سب کانوں کو بھلے لگتے ہیں۔ یہی معاملہ ریڈیو پاکستان سنتے ہوئے انڈیا والے کے ساتھ پیش آتا۔
وہی شخص کہتا ہے کہ ریڈیو پاکستان کے تبصرہ نگاروں کی شستہ اردو بہت پرلطف تھی۔ حیرت انگیز طور پر میچ کا پورا تبصرہ اردو میں تھا، انگریزی کی ذرا بھی آمیزش نہ تھی۔
پاکستان کو 29 برس بعد آئی سی سی کے کسی بڑے ایونٹ کی میزبانی کا اعزاز مل رہا ہے۔ پاکستان نے 1996 میں انڈیا اور سری لنکا کے ساتھ مل کر ورلڈ کپ کی میزبانی کی تھی۔
کرکٹ کو جنون کی حد تک مشہور بنانے میں کرکٹ کی اردو کمنٹری کا کلیدی کردار ہے۔ پاکستان اگر دوبارہ اچھے مبصرین کو کمنٹری باکس میں بٹھا سکا تو ایونٹ کا لطف ڈبل ہو جائے گا۔
مگر ایک خدشہ ہے جسے فہد کیہر نے بہت خوبصورت مثال سے واضح کیا۔
وہ لکھتے ہیں ایک میچ کے دوران کمنٹیٹر کہتا ہے، ’بابر اعظم wait کرکے تھوڑا late کھیلتے ہیں، ان کا hand eye coordination بہت کمال کا ہے۔ ان کی stroke making دیکھیں، اس میں آپ کو balance نظر آتا ہے۔‘
بھائی یہ تو نہ اردو ہے نہ انگریزی۔ اگر اردو میں ایسی کمنٹری کرنی ہے تو اس سے بہتر ہے رمیز راجہ کی انگریزی سے ہی کام چلا لیا جائے۔