افغانوں کو جڑواں شہروں سے انخلا کی ہدایت، کابل کی تنقید مسترد

پاکستان نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم افغانوں کو 28 فروری سے پہلے انخلا کی ہدایت کے معاملے پر افغان سفارت خانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد افغانوں کی وطن واپسی کے لیے حالات کو آسان بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

نومبر17، 2023 کو کراچی کے مضافات میں ایک سرچ آپریشن کے دوران مبینہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کو ایک پولیس وین میں بیٹھا ہوا دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

پاکستان نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم افغان شہریوں کو 28 فروری سے پہلے دونوں شہروں سے نکل جانے کی ہدایت کے معاملے پر افغان سفارت خانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد افغانوں کی ان کے آبائی وطن واپسی کے لیے حالات کو آسان بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو ہدایت کی ہے کہ حکومت پاکستان کی ہدایات کی روشنی میں وہ رواں ماہ 28 فروری سے پہلے دونوں شہروں سے نکل جائیں۔

تاہم صرف ان افغان شہریوں کو رہنے کی اجازت ہوگی، جن کے پاس پاکستان کا ویزا موجود ہو۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق: ’اس کے علاوہ وہ افغان پناہ گزین، جن کے پاس کسی دوسرے ملک منتقلی کے حوالے سے خط موجود ہے، وہ 31 مارچ تک اسلام آباد اور راولپنڈی سے نکلنے کی تیاری کریں۔‘

بدھ کو افغان سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں حکام کی طرف سے افغان شہریوں کو اسلام آباد، راولپنڈی چھوڑنے کے لیے دیے گئے ’مختصر وقت‘ اور ’پاکستان کے فیصلے کی یکطرفہ نوعیت‘ پر تنقید کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان سفارت خانے نے افغان شہریوں کی گرفتاریوں اور چھاپوں کا ذکر کرتے ہوئےکہا کہ پاکستانی حکام نے ’کسی رسمی خط و کتابت کے ذریعے‘ کابل سے اس سلسلے میں بات نہیں کی۔

تاہم پاکستان نے اپنے اس فیصلے کا دفاع کیا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’ہم نے پاکستان کے غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے منصوبے کے بارے میں اسلام آباد میں افغان ناظم الامور کے ریمارکس کو نوٹ کیا ہے۔ افغان شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک کے حوالے سے ان کے دعوے غلط ہیں۔‘

ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے بیان میں مزید کہا: ’میں انہیں یاد دلانا چاہوں گا کہ پاکستان نے کئی دہائیوں سے لاکھوں افغانوں کی عزت اور وقار کے ساتھ میزبانی کی ہے اور روایتی مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ اپنے وسائل اور خدمات جیسے کہ تعلیم اور صحت کا اشتراک کیا ہے، یہاں تک کہ اس سلسلے میں پاکستان کو بہت کم بین الاقوامی تعاون ملا۔‘

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک غیر ملکیوں کا تعلق ہے، ہم نے 2023 میں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی بے دخلی (IFRP) کا منصوبہ شروع کیا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مناسب طریقہ کار وضع کیا کہ وطن واپسی کے عمل کے دوران کسی کے ساتھ بدسلوکی یا انہیں ہراساں نہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں، ہم نے افغان شہریوں کی آسانی سے وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے افغان فریق کو بھی بڑے پیمانے پر شامل کیا۔‘

مزید کہا گیا: ’ہم عبوری افغان حکام سے توقع کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں سازگار حالات پیدا کریں تاکہ واپس آنے والے افغان معاشرے میں مکمل طور پر مربوط ہوں۔ افغان حکام کا اصل امتحان اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان لوگوں کے حقوق جن کے بارے میں افغان ناظم الامور نے بات کی ہے، افغانستان میں محفوظ ہیں۔‘

گذشتہ ماہ 29 جنوری کو وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پہلے مرحلے میں افغان سیٹیزن کارڈ (جو 2017 میں پاکستان کی طرف سے افغان پناہ گزینوں کو جاری کیا گیا تھا) رکھنے والے اور سفری دستاویزات کے بغیر مقیم افغان پناہ گزینوں کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے نکال کر افغانستان بھیجا جائے گا۔

اس اجلاس میں (جس کی دستاویز انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دوسرے مرحلے میں پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے افغان پناہ گزینوں کے کیس کو دیکھا جائے گا، جن کے کارڈز کی مدت 30 جون 2025 تک ہے، لیکن انہیں بھی اسلام آباد اور راولپنڈی سے نکالا جائے گا۔

اسی طرح اس دستاویز کے مطابق وہ افغان پناہ گزین جو کسی دوسرے ملک مقیم ہونے کے عمل کے لیے اسلام آباد یا راولپنڈی میں ہیں، انہیں 31 مارچ تک رہنے کی اجازت ہوگی۔

یو این ایچ سی آر پاکستان کے ترجمان قیصر آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ فیصلہ حکومت پاکستان نے کیا ہے اور تمام سٹیٹس رکھنے والے افغان پناہ گزینوں کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے جانے کا کہا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’صرف ویزا ہولڈرز اسلام آباد یا راولپنڈی میں رہ سکتے ہیں، تاہم اس ضمن میں ہم نے انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی حکومت سے درخواست کی ہے کہ اس عمل کے لیے باقاعدہ ایک پلان بنایا جائے۔‘

قیصر آفریدی کے مطابق: ’بہت سے افغان پناہ گزین دونوں شہروں میں کاروبار سے وابستہ ہیں یا ان کے بچے سکولوں میں پڑھ رہے تو ہم نے انہیں تھوڑا وقت دینے کا کہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اگر اس عمل کو پورا کرنے کے لیے باقاعدہ ایک مکینزم بنایا جائے، تو انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ عمل مکمل ہو سکتا ہے لیکن اتنی جلدی میں افغان پناہ گزینوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔

افغان پناہ گزین کیا کہتے ہیں؟

کابل میں افغان طالبان کے آنے کے بعد نقل مکانی کرکے اسلام آباد آنے والے قاسم خان اس وقت کسی اور ملک منتقلی کا انتظار کر رہے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ تین سالوں سے ان کا کیس زیر غور ہے لیکن ابھی تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور اب ہمیں اسلام آباد سے نکالا جا رہا ہے۔

قاسم نے بتایا: ’کابل میں افغان طالبان کے آنے کے بعد جتنے بھی افغان پناہ گزین پاکستان آئے ہیں، ان کے پاس ویزا نہیں ہے۔ وہ نہایت مشکلات سے پاکستان داخل ہوئے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ایک تو ہمیں معاشی مسائل ہیں اور دوسری جانب اب اسلام آباد سے نکلنے کا کہا جا رہا ہے تو اس سے ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ ہم تو نہ واپس کابل جا سکتے ہیں اور نہ کسی دوسرے ملک جا سکتے ہیں۔‘

شاہین زاخیل جب دو سال کے تھے تو اپنے والدین سمیت 1978 میں پاکستان منتقل ہوئے تھے اور تب سے اب تک پاکستان میں آباد ہیں۔

ان کے تمام بچے، پوتے و نواسے بھی پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں کاروبار سے وابستہ ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اتنے کم وقت میں کاروبار سمیٹ کر کسی اور جگہ منتقل ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ پچھلے تقریباً 45 سالوں سے پاکستان میں آباد ہیں۔

شاہین نے بتایا: ’ایک تو 28 فروری تک دوسرا گھر ڈھونڈنا اور پھر وہاں منتقل ہونا ممکن نہیں ہے جبکہ رمضان بھی آ رہا ہے۔ دوسری وجہ یہاں پر ہمارا کاروبار ہے، جس سے گھر کا چولہا جلتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس پی او آر کارڈز بھی موجود ہیں لیکن ہمیں پھر بھی بے دخل کیا جا رہا ہے، جو ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔

شاہین کا مزید کہنا تھا: ’پاکستانی حکومت نے اتنا عرصہ ہماری میزبانی کی، ہم یہیں پر پلے بڑھے ہیں تو اب ہمارے ساتھ ایسا نہ کیا جائے کیونکہ یہاں کچھ لوگوں کے مال مویشی یا بڑے کاروبار ہیں اور انہیں منتقل کرنا بہت مشکل ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان