امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی محکمہ برائے حکومتی استعداد( ڈی او جی ای) کے اس فیصلے کا دفاع کیا ہے، جس کے تحت انڈیا میں ووٹر ٹرن آؤٹ بڑھانے کے لیے مختص کیے گئے دو کروڑ 10 لاکھ ڈالر کے فنڈ کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے بدھ کو میامی میں ایک تقریب کے دوران سوال اٹھایا: ’ہمیں انڈیا میں ووٹر ٹرن آؤٹ کے لیے دو کروڑ 10 لاکھ ڈالر خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میرے خیال میں وہ کسی اور کو منتخب کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں انڈین حکومت کو بتانا چاہیے، کیونکہ جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ روس ہمارے ملک میں دو ڈالر خرچ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، تو یہ بہت بڑا مسئلہ بنا دیا گیا، ہے نا؟ انہوں (روس) نے دو ہزار ڈالر کے انٹرنیٹ اشتہارات خریدے تھے۔ یہ تو ایک مکمل انکشاف ہے۔‘
منگل کو، ٹرمپ نے سوال کیا تھا کہ امریکی حکومت ’انڈیا کو دو کروڑ 10 لاکھ‘ ڈالر کیوں دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا: ’ان کے پاس پہلے ہی بہت زیادہ پیسہ ہے۔ وہ دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جو ہم پر سب سے زیادہ ٹیکس عائد کرتے ہیں، ہم بمشکل وہاں اپنی چیزیں فروخت کر پاتے ہیں کیونکہ ان کے ٹیرف بہت زیادہ ہیں۔
ٹرمپ نے فلوریڈا میں اپنی مار اے لاگو رہائش میں کہا: ’میں انڈیا اور ان کے وزیر اعظم کا بہت احترام کرتا ہوں، لیکن ووٹر ٹرن آؤٹ کے لیے دو کروڑ 10 لاکھ ڈالر ملین ڈالر؟ انڈیا میں؟ ہمارے اپنے ملک میں ووٹر ٹرن آؤٹ کا کیا ہو گا؟‘
ارب پتی ایلون مسک کی سربراہی میں کام کرنے والے ڈی او جی ای نے ہفتے کے آخر میں حکومتی اخراجات میں کٹوتیوں کا اعلان کیا، جن میں انڈیا میں ووٹر ٹرن آؤٹ کے لیے مختص فنڈ بھی شامل تھا۔
کٹوتیوں کا اعلان کرتے ہوئے، محکمے نے کہا کہ ’امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسے درج ذیل چیزوں پر خرچ کیے جانے تھے، جنہیں مکمل طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس میں ’کنسورشیم فار الیکشنز اینڈ پولیٹیکل پروسیس سٹرینتھننگ‘ کے لیے مختص 48 کروڑ 60 لاکھ ڈالر شامل تھے، جن میں سے دو کروڑ 10 ڈالر ’انڈیا میں ووٹر ٹرن آؤٹ‘ کے لیے مختص کیے گئے تھے۔
ٹرمپ کا یہ بیان انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے چند روز بعد آیا، جہاں ٹرمپ نے انڈیا کو جوابی ٹیرف عائد کرنے کی وارننگ دی تھی۔
سیٹی ریسرچ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی دھمکی کے مطابق اپریل کے اوائل سے جوابی ٹیرف کے نفاذ سے انڈیا کی برآمداتی صنعت کو سالانہ سات ارب ڈالر تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔
نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس منسوخ شدہ فنڈنگ کو انڈیا کے انتخابی عمل میں ’بیرونی مداخلت‘ قرار دیا ہے۔
پارٹی کے ترجمان امیت مالویہ نے کہا: ’ووٹنگ ٹرن آؤٹ کے لیے دو کروڑ 10 لاکھ ڈالر؟ یہ یقینی طور پر انڈیا کے انتخابی عمل میں بیرونی مداخلت ہے۔ اس کا فائدہ کس کو ہوگا؟ حکمران جماعت کو تو ہرگز نہیں!‘
ڈی او جی اے کو وفاقی حکومت کے اخراجات میں کمی کا کام سونپا گیا ہے۔ محکمے نے دیگر ممالک کے لیے فنڈز کی کٹوتی کا بھی اعلان کیا، جس میں موزمبیق میں ’رضاکارانہ طبی ختنے‘ کے لیے ایک کروڑ ڈالر، کمبوڈیا میں ’آزاد آوازوں کے فروغ‘ کے لیے دو کروڑ ڈالر، ’جینڈر ایکوئلٹی اینڈ ویمن ایمپاورمنٹ ہب‘ کے لیے چار کروڑ ڈالر، اور بنگلہ دیش میں ’سیاسی ڈھانچے کی مضبوطی‘کے لیے دو کروڑ 90 لاکھ ڈالر شامل ہیں۔
© The Independent